شعائر اسلام کی توہین سے متعلق جامعہ بنوری کا فتویٰ ۔ | تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
آج کل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مذہبی معاملات پر لطیفے اور مزاحیہ پیغامات پھیلاکر شعائر اسلام کی توہین کی جارہی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران بعض افراد قرآن و حدیث کے الفاظ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ایک حساس دینی مسئلہ ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء نے ایسے مزاحیہ پیغامات کے متعلق ایک فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں ان کو مذہبی شعائر کی توہین قرار دیا گیا
ہے۔ آئیے پہلے سوال اور فتوے کے جوابات دیکھتے ہیں پھر اس پر تبصرہ کریں گے ان شا الله۔
ایک بندے سوال کیا ہے کہ رمضانُ المُبارک میں واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر یہ میسیج بہت چلے جس میں
معاذ اللہ قرآن کی آیت اور حدیث مبارک کا مذاق بنایا گیا:
1- اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، پکوڑے نہیں۔
2- رمضان میں شیطان نہیں، انٹرنیٹ بند ہونا چاہے وغیرہ وغیرہ۔
جان بوجھ کر جب کہ پتا ہے مذکورہ مضمون کا ابتدائی حصہ آیت اور حدیث ہے۔ جن لوگوں نے یہ میسج بنائے اور جنہوں نے آگے بھیجے ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
فتوے کا جواب یہ ہے:
دینی شعائر ، علامات اور احکامات کا احترام لازم اور ضروری ہے، دینی شعائر اور احکامات کا مذاق اڑانا انسان کو کفر تک پہنچادیتا ہے، اس معاملہ میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، منافقین کے دین کا استہزا کرنے پر ان کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئیں :
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (66)” (سورۃ التوبہ:65،66 )
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیے تو کہہ دیں گے کہ ہم تو محض مشغلہ اور خوش طبعی کررہے تھے، آپ (ان سے) کہہ دیجیے گا کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تم ہنسی کرتے تھے۔ تم اب (یہ بیہودہ) عذرمت کرو تم اپنے کو مؤمن کہہ کر کفر کرنے لگے، اگر ہم تم میں سے بعض کو چھوڑ بھی دیں تاہم بعض کو تو (ضرور ہی) سزادیں گے بسبب اس کے کہ وہ (علم ازلی) میں مجرم تھے۔(بیان القرآن )
لہذا مذکورہ لوگوں پر لازم ہے کہ صدقِ دل سے توبہ کریں ، اور آئندہ اس قسم کے پیغامات بھیجنے سے مکمل اجتناب کریں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201378
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن۔
فتویٰ میں درج ذیل نکات پر زور دیا گیا ہے:
دینی شعائر کا احترام لازم ہے: قرآن و حدیث کا مذاق اڑانا دینی احکام کی توہین ہے۔
ایسا عمل انسان کو کفر تک پہنچا سکتا ہے: فتوے میں قرآن کی سورۃ التوبہ (آیات 65-66) کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں دین کا مذاق اڑانے والوں کو کفر کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے صدقِ دل سے توبہ ضروری ہے۔ فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایسے پیغامات بنا کر پھیلاتے ہیں، انہیں فوراً توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ ایسے پیغامات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
مسلمان کے لیے دینی شعائر کا احترام انتہائی ضروری ہے۔ فتویٰ کا پہلا نکتہ، کہ دینی شعائر کا احترام لازم ہے، ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسلام میں مذاق کی اجازت ہے، لیکن اگر وہ مذاق دین کے بنیادی عقائد یا احکامات کا تمسخر بن جائے، تو اسے ناپسندیدہ بلکہ بعض صورتوں میں حرام قرار دیا گیا ہے۔
بعض اوقات لوگ طنزیہ یا اصلاحی انداز میں بھی بات کرتے ہیں، جیسے:
“اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، پکوڑے نہیں۔”
یہ جملہ درحقیقت معاشرتی رویوں پر طنز ہے کہ لوگ رمضان کو صرف کھانے پینے کے حوالے سے اہم سمجھتے ہیں، جبکہ اس کا اصل مقصد تقویٰ ہے۔
ایسا مزاح جس میں قرآنی آیات کا مفہوم بدل گیا ہو وہ توہین میں آتا ہے کیونکہ نیت اور الفاظ کے سیاق و سباق کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
فتوے میں سورۃ التوبہ کی آیات 65-66 کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے، جن میں منافقین کے دین کا مذاق اڑانے کا ذکر ہے۔ تاہم ان آیات کا اصل سیاق غزوۂ تبوک کے موقع پر منافقین کا رسول اللہﷺ اور دین کے احکامات پر استہزاء تھا۔
مذاق اور استہزاء میں فرق ہوتا ہے۔ مزاح اگر اصلاحی ہو تو وہ قابلِ قبول ہے، لیکن اگر وہ کسی دینی حکم کو کمزور یا مضحکہ خیز ثابت کرنے کے لیے ہو، تو اسے قابلِ گرفت کہا جا سکتا ہے۔
مثلاً، اگر کوئی شخص کہے کہ رمضان میں شیطان نہیں بلکہ انٹرنیٹ بند ہونا چاہیے، تو اس جملے میں طنز کا پہلو ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دین کے کسی حکم کا مذاق اڑا رہا ہے۔ بلکہ یہ جدید معاشرتی حالات پر ایک تبصرہ ہو سکتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والے فتنوں سے بچنے کی بھی ضرورت ہے۔
کسی عمل کو “کفر تک پہنچانے والا” قرار دینا ایک انتہائی نازک معاملہ ہے۔ فقہ میں عام طور پر کسی شخص کو کافر قرار دینے سے پہلے اس کی نیت اور ارادے کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص نادانستہ طور پر کوئی ایسا مذاق کرتا ہے، جسے وہ توہین نہیں سمجھتا، تو فقہی اصول یہی کہتا ہے کہ اسے وضاحت اور توبہ کا موقع دیا جائے۔
یہ فتویٰ دینی غیرت و حمیت پر مبنی ہے، لیکن اس میں عمومی رویے کو کفر سے جوڑنے میں زیادہ سختی برتی گئی ہے۔ ایسے معاملات میں فتویٰ دیتے وقت فقہی اصولوں کے مطابق “نیت” کا پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
فتوے میں صرف مذمت کی گئی ہے، لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ایسے مزاح سے بچنے کے لیے عوام کو کیسے آگاہ کیا جائے یا دین کا درست پیغام کیسے پہنچایا جائے۔
فتوے میں ہر قسم کے مزاح کو دین کے استہزاء کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے، جبکہ ضروری نہیں کہ ہر مزاح کا مقصد دین کا مذاق اڑانا ہو۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کا یہ فتویٰ دین کے احترام کے حوالے سے ایک سنجیدہ موقف پیش کرتا ہے اور دین کا مذاق اڑانے کے سنگین نتائج کی طرف متوجہ کرتا ہے۔