کاغذ کے چند ٹکڑے۔| تحریر: اقبال حسین اقبال

آج مجھے ان دنوں کی بے حد یاد آئی’ جب میں قراقرم انٹرنیشنل یونی ورسٹی میں پڑھتا تھا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب یونی ورسٹی میں ہمارا آخری سمسٹر چل رہا تھا اور ہمیں 40 دنوں کی تدریسی تریبت کے لیے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول گلگت بھیجا گیا تھا۔پہلے دن جب ہم اسکول پہنچے تو پرنسپل صاحب نے اپنے آفیس میں ہمیں بلایا اور کچھ نصیحتیں کیں۔جوانی کے شوق بھی عجیب ہوتے ہیں۔ان دنوں میرے بال کافی لمبے اور گھنے تھے۔پرنسپل نے مجھے بال چھوٹے بنانے کے لیے کہا۔

 میں روزانہ صبح یہاں پہنچتا تھا اسمبلی ہوتی تھی۔کچھ طلبہ اسمبلی میں دیر سے پہنچتے تھے اور پرنسپل صاحب انھیں زور دار چمانٹ رسید کرتا تھا۔میں کلاس ہشتم میں انگلش پڑھاتا تھا۔روزانہ شوق سے سمارٹ لیسن پلان بناتا تھا۔خوب محنت کی اور بچوں کو بہت شوق سے پڑھایا۔کبھی کبھار پیریڈ گزرنے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔اکثر اساتذہ کلاس میں ایک چھڑی ساتھ لے کر جاتے تھے تاکہ شریر بچوں کو لاٹھی کے زور پر قابو کر سکیں لیکن یہ عمل فطرت کے خلاف ہے۔چند دنوں کی کلاسوں کے بعد ہی بچے ہماری گرویدہ ہو گئے۔یوں ایک روحانی اور محبت کا پاکیزہ رشتہ قائم ہو گیا۔

میں یہاں تقریباً ایک مہینے تک پڑھاتا رہا اور پھر یونی ورسٹی کی جانب سے ہمیں واپس بلایا گیا۔اسکول سے نکلتے وقت بچے بہت اداس ہو گئے۔یہ 10 دسمبر 2016ء کی آخری کلاس تھی۔میں رخصت ہونے سے قبل ان سے کہا کہ دیکھو بچو! میں ایک مہینے تک آپ کے ساتھ رہا ہوں۔آپ مجھے ایک کاغذ پر اپنی فیڈ بیک لکھ کر دے دیں تاکہ میں جان سکوں کہ مجھ میں کون سی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔اس کے علاوہ تدریسی عمل کا اندازہ لگا سکوں اور آپ کی لکھی ہوئی تحریر محض ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ میری زندگی کا حصہ ہے۔میں ہمیشہ انھیں اپنے پاس سنبھال کر رکھ لوں گا۔بچوں نے اپنا فیڈ بیک لکھ کر مجھے دے دیا اور انھیں لے کر میں لوٹ آیا۔

وقت گزرتا گیا اور وہ کاغذ کے ٹکڑے فائلوں کے پلندوں میں کہیں گھم  ہو گئے۔آج مدتوں بعد مجھے کسی اہم چیز کی تلاش تھی اور میں فائلوں کو کھول کر کاغذوں کو اِدھر اُدھر کر رہا تھا۔میرے آس پاس کاغذوں اور فائلوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔میں اپنی پرانی چیزوں کو تلاش کر رہا ہوں۔پھر وہی پرانے کاغذ کے ٹکڑے میرے سامنے آئے جو بچوں نے بہت پیار اور خلوص دل سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔یہ میرے سوچنے کے زاویے کو یکسر تبدیل کر کے ماضی کی حسین وایوں میں لے جاتے ہیں۔ایک کاغذ کا ٹکڑا مجھے قلم اٹھا کر چند سطریں لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

میں ایک لمحے کے لیے رُکا۔ایک ٹکڑا اٹھا کر پڑھ لیتا ہوں۔ساتھ ہی کلاس میں گزری ان لمحوں کو یاد کرتا ہوں۔لمبی سانس لیتا ہوں اور دوسرا کاغذ اٹھا کر پڑھ لیتا ہوں۔بچوں کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے ربط مگر محبت بھرے جملے مجھے بے حد جذباتی کرتے ہیں اور فرطِ جذبات سے بے قابو ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوں اوپر آسمان کی جانب دیکھتا ہوں سینے پر ہاتھ لگاتا ہوں تو ساغر صدیقی کا یہ شعر بے ساختہ میری زبان پر آتا ہے۔

وقت کی چند ساعتیں ساغر

لوٹ آئے تو کیا تماشا ہو

بچوں کا فیڈ بیک کچھ اس طرح سے تھا

ثاقب جان نام کے ایک لڑکے نے لکھا تھا “میرے پیارے سر اقبال آپ بہت انٹیلی جینس ہیں۔آپ کا پڑھایا ہوا سبق ہمیں اچھی طرح سمجھ آتا ہے۔سر آپ یہاں سے جاؤ گے تو ہمیں بے شمار یاد آؤ گے۔اس لیے سکول کو مت چھوڑنا پلیز۔

عمار احمد نامی لڑکے نے لکھا “میرا استاد نیک اور قابل ترین استاد ہے۔اس کی تعلیم سے ہم بہت زیادہ لطف اٹھاتے ہیں۔جب ہم شور کرتے ہیں تو وہ ہمیں پیاری باتوں سے سمجھاتا ہے اور دوسرے اساتذہ چھڑی سے سمجھاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ میرے استاد کو کامیاب کرے۔”

ایک بچے نے لکھا تھا “اقبال حسین صاحب آپ بے حد اچھے اور خوب صورت ہیں۔آپ کے بالوں کا سٹائل بہت اچھا ہے۔ ٹائم پر کلاس آتے ہیں۔آپ ہمیں اچھے سے پڑھا رہے ہیں اور ہماری اچھی تربیت کر رہے ہیں۔آپ ہم سے کنتی ہی دور جاؤ مگر آپ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہو گے۔اللہ آپ کو دنیا کی ہر خوشی عطا فرمائے۔”

ایک لڑکے نے لکھا “ہمارا سر اقبال چالیس دنوں کی کورس کے لیے آیا ہے اور بہت اچھے انداز سے پڑھاتا ہے۔ہمارے سر کے پڑھانے کا انداز دوسرے اساتذہ سے مختلف ہے۔وہ ہماری انگلش کا کورس مکمل کروا رہا ہے۔انھوں نے ہمیں کبھی نہیں مارا۔”

ایک اور لڑکے نے لکھا “سر ہمیں تقریباً تیس دنوں سے پڑھاتے ہیں اور شوق سے لکھواتے ہیں۔آپ کے لکھنے، پڑھنے، اٹھنے اور بیٹھنے کا انداز بہت شاندار ہے۔بچے آپ کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر آپ تنگ نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ اچھی انداز میں نصیحت کرتے ہیں۔”

ایک بچے نے شعر کچھ اس طرح لکھا تھا

آپ کے جانے کے بعد اے استاد

ہم آپ کو یاد رکھیں گے دلوں میں اے! اقبال

مدتوں پہلے بچوں کے لکھے ہوئے کاغذ کے صفحات میرے ہاتھ میں ہیں اور سوچنے لگتا ہوں کہ طلبہ کے دل و دماغ میں جھانک کر پتہ لگانا کتنا مشکل عمل ہے کہ وہ اپنے استاد کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا ہماری باتیں وہ سمجھ پا رہے ہیں یا نہیں؟کہیں ہم ایک ہی لاٹھی سے سبھی بچوں کو ہانکنے کی کوشش تو نہیں کرتے ہیں؟ مگر تحریری فیڈ بیک ایک ایسا طریقہ کار ہے جس سے آپ طلبہ کے دلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔یہ ہمیشہ آپ کے اصلاح کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔ٹیچر کو اپنے میتھڈ اور انداز کو بدلنے یا بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بچوں کو بہتر انداز میں لیسن ڈیلیور کر سکے۔یاد رکھیں ٹیچر وہ نہیں ہوتا جو صرف کتاب کے چند عبارتیں پڑھائے بلکہ وہ طلبہ کے دلوں میں اپنا ٹھکانہ بناتا ہے۔اُن کے اندر شوق، تجسس، علم، عمل، مشاہدہ، تحقیق، تخلیق اور سب سے بڑھ کر مقصد حیات جیسی خصوصیات پیدا کرتا ہے

اقبال حسین اقبال کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link