سفر نامہ: یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے۔ | تبصرہ نگار: تہذین طاہر
میں محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ کو کچھ سالوں سے جانتی ہوں۔ لیکن گزرے 3سالوں میں ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ بن گیا۔ تسنیم آپی محبت کی اعلیٰ مثال ہیں۔ سیدھی بات کرنا ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ ہمدرد اور دین دنیا سے بخوبی واقف ہیں۔ دین دار ہیں اور دنیا کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ ہر لڑکی کی طرح آپ میں بھی وہ لڑکی موجود ہے جو اکثر سوچتی ہے لوگ کیا کہیں گے۔ آپ کی شخصیت بہت منفرد اور مہمان نوازہے۔ میں اپنے حلقہ احباب سے بہت کچھ سیکھتی ہوں۔ آپ سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میں اکثر اپنے آفس میں آپ کے ساتھ چائے پینے کی منتظر رہتی ہوں اور یہ انتظار تب زیادہ ہوتا ہے جب میرا دل کسی کے ساتھ بیٹھ کے چائے کے ساتھ کچھ ہلکا پھلکا کھانے کا دل کر رہا ہو۔ کہتے ہیں نا بعض اوقات کسی کا ساتھ ہی آپ کے لیے اہم ہوتا ہے باقی سب بہانے بازی، تو یوں سمجھیں میرا بھی یہی حال ہے۔ آپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو مختصر ہی سہی لیکن بہت خاص ہوتی ہے۔ آپ کی طرف سے ملنے والے خوبصورت تحائف کا ذکر کروں تو شاید ہی کسی نے کبھی مجھے ایسے تحائف سے نوازا ہو۔ میری سالگرہ ، عید اور چھوٹی موٹی ہر خوشی میں مجھے اپنے ساتھ کھڑا رکھتی ہیں بالکل بہنوں کی طرح۔ میں اس پُر خلوص محبت پر آج ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کیونکہ جو تسنیم آپی کی مجھ سے اپنائیت ہے وہ الگ ہی ہے۔بنا کسی مطلب اور مقصد سے میری زندگی میں شامل ہونے والے چند لوگوں میں آپ کا شماربھی ہوتا ہے۔آج اگر میں دیکھوں تو میں نے اب اپنی زندگی کے اس موڑ پر چند ایسے دوستوں کا ساتھ پا لیا ہے جو صرف میری وجہ سے میرے ساتھ ہیں۔ الحمدللہ!۔ بہت کچھ ہے لکھنے کو لیکن شاید الفاظ کم پڑ جائیں۔ لہٰذا چلتے ہیں کتاب کی طرف۔
زیر نظر کتاب” یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے“ تسنیم آپی کا چین کا سفر نامہ ہے جسے انہوںنے ایک یادگار کے طور پر کتاب کی شکل میں چھپوایا اور محفوظ کر لیا۔ یہ ان کی اب تک کی لکھنی جانے والی کتابوں میں سب سے ضخیم کتاب ہے۔یہ آپ کاپہلا سفر نامہ ہے لیکن آخری نہیں۔ امید ہے آنے والے سالوں میں آپ کے سفر ناموں میں ایک سفر نامہ بیت اللہ اور روضہ رسول بھی ہوگا، کیونکہ جس انداز میں آپ نے چین کو پاکستان بیٹھے ہمیں دکھا دیا ویسے ہی آپ ان عظیم مقامات کی اتنی خوبصورتی سے تفصیل بتائیں گی کہ واقعی مجھ سمیت ہر قاری آپ کے قدم سے قدم ملا کر ان مبارک اور رحمتوں سے منور جگہوںکو دیکھیں گے۔
کتاب 270صفحات پر مشتمل ہے ۔ہر صفحہ اور صفحہ پر لکھا جانے والا منظر اتنا خوبصورت اور دلکش ہے کہ دل کرتا ہے ایک بار تو”چلیے چین کو“۔ ہر صفحے کو ایک الگ انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ کتاب میں کئی مقامات کی تصاویر موجود ہیں جو سفر نامے کو مزید رونق بخش رہی ہیں۔ کتاب کا انتساب ” اس مشرقی عجوبے کوسلام جس کے چپے چپے پر ایک عجوبہ موجود ہے، جس کی ترقی حیران کن ہے اور جس کا رویہ بے مثال ہے، جس نے سبقت پا کر بھی دنیا کو اپنا اچھا پہلو ہی دکھایا اور اپنا بیسٹ دیا“۔شاید ہی کبھی کسی نے اتنے مختصر اور انوکھے انداز میں کسی کو خراج تحسین پیش کیا ہوگا۔
کتاب 54ابواب پر مشتمل ہے۔ ان ابواب میں پاسپورٹ اور ویزا پراسس سے لے کر پاکستان واپسی تک کے سفر کی تمام روداد موجود ہے۔ ایئر چاینہ کا تجربہ اور ناشتہ، بیجنگ انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہ آمد، پولیس اسٹیشن حاضری، جھیل کی سیر، نئے جاگرز کی خریداری، ورزش اور تفریح، دیوارچین، شہر ممنوعہ، بیجنگ کی آب و ہوا اور فضائی آلودگی کا خاتمہ، چینی‘ چینی کو زہر سمجھتے ہیں، جھیل کا منظر اور بارش، کار پینٹر لڑکی، تعمیراتی عجوبے، خوبصورت خفے، تیز ترین ٹرین کا سفر، عالی شان شنگھائی، چھنداو ¿ کا خوبصورت ساحل سمندر، گلاس برج سمیت سفارت خانے کے سکول کا دورہ اور بین الاقوامی ویب سائٹ ابابیل کے آفس تک کے تمام سفر کو پڑھتے ایسا لگتا ہے جیسے آپ مصنفہ کے ساتھ قدم دے قدم ملا کر خود چین کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اتنے مزے دار انداز میں باتیں بتائی گئی ہیں کہ واقعی انسان انجوائے کرتے ہوئے خوش اسلوبی سے اس سفر نامے کی روداد پڑھتا جاتا ہے، جیسے ایک جگہ لکھا ”اس سال گرمی بھی ریکارڈ توڑ پڑی تھی اور اتفاق سے مجھے جانا بھی اسی گرمی میں تھا (کہتے ہیں کہ 2023ءمیں جو گرمی پڑی اس نے پچھلے ایک لاکھ سال کا ریکارڈ توڑا، پتا نہیں ایک لاکھ سال پہلے کا ریکارڈ چیک کیسے کیا گیا)“، میں واقعی اس بات کو پڑھ کر ہنسنے لگی اور بے اختیار کہا آپی آپ گریٹ ہیں۔
”یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے“ کتاب کا عنوان کیوں اور کس نے تخلیق کیا اس میں بھی ایک راز ہے، پہلے سوچاکتاب کے بارے میں لکھے آپی کے پیش لفظ میں سے کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھی جائیں لیکن جب دیکھا تولگایہ تو سارا پیش لفظ ہی آپ کے سامنے رکھ دینا چاہیے، لہٰذااس کتاب کو پڑھنے کی جستجو قائم رکھنے کے لیے بس اتنا کہوں گی، چین کا ذکر انبیاءکرامؑ کے دور میں بھی ہوا،مزاح نگارابن انشا نے بھی کیااور کہا ”چلتے ہو تو چین کو چلیے“۔چین علم و فن کا گہواہ ہے۔ جدید عجوبے سے بھرا پڑا چین اور یہاں کی ترقی دیکھ کر بڑی بڑی نام نہاد ترقی یافتہ قومیں انگشت بدنداں ہیں۔ اس کے باوجود چین کی عوام نے کبھی نہ تو خود پر تکبر کیا اور نہ ہی خود کو ترقی یافتہ سمجھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آنے والے سالوں میں اس کی ترقی کا ذکر دنیا کے کونے کونے میں ہوگا۔
آپی نے شاعر سے معذرت کرتے ہوئے لکھا۔
آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ چین کیا سے کیا ہوگی
اور میں ان کی اس بات سے 100فیصد متفق ہوں۔ دیکھاجائے تو چین اور پاکستان نے ترقی کا سفر ایک ساتھ شروع کیا تھا، آج چین کہاں پہنچ گیا اور پاکستان کہاں کھڑا ہے۔چینیوں کے ساتھ ساتھ میں بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ پاکستانی بہت ذہین اور محنتی ہیں لیکن اب کام چوری میں پڑ گئے ہیں اس لیے ناکامی کا سامنا ہے۔ ہر بندہ دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کے کوئی اس کی پیٹھ پر بھی وار کر سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت اور یہاں کی عوام نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، دوسروں کی تذلیل کرنے، ان پر تنقید کرنے میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ آج ہمارا ملک ببیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ افسوس صد افسوس۔
اگر میری طرح آپ بھی گھر بیٹھے چین /چائنہ کا سفر کرنا چاہتے ہیں تو کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ کتاب کا ہر ورق دلچسپ ہے، معلومات کا خزانہ لیے اس سفر نامے کو ایک بار توضرور پڑھنا چاہیے۔کتاب کی قیمت1600/-روپے ہے۔ کتاب کی تزئین و آرائش پریس فار پیس پبلی کیشنز کے مایہ ناز ڈیزائنر سید ابرار گردیزی نے کی ہے ، گردیزی صاحب ہمیشہ کمال کرتے ہیں۔ سرورق میں پورا چائنہ سمو دیا ہے۔ اس معلوماتی ، دلچسپ، خوبصورت اور منفرد سفر نامے کو حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
تسنیم آپی کے روبرو بیٹھ کے چین کے ایک شہر کی خوبصورتی کا ذکر سنا تو لمحہ بھر کے لیے میں خود کو اسی شہر کی پُر رونق فضا میں لے گئی۔ آخر میں اس باکمال سفر نامے کی اشاعت پر آپی کو ڈھیروں مبارک باد اور دعائیں۔