پارا چنار۔۔۔چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔| تحریر : نذر حافی
تعلیمی ادارے سنسان پڑے ہیں۔لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہونے کو ہے۔ زمین پھٹتی نہیں اور آسمان گرتا نہیں۔ مسافر گاڑیوں پرحملے جاری ہیں۔ یہ کوئی ایک دو یا چند سالوں کی بات نہیں، اب مسئلہ ملکی سالمیّت کا ہے۔ محاصرہ ایسا ہے کہ متاثرہ منطقے میں جانے والی ایمبولینس تک محفوظ نہیں، امدادی راشن اور دوائیاں لے جانے والی گاڑیوں کو بھی لوٹ لیا جاتا ہے ، رضاکاروں کو قتل کرنا تو معمول کی کارروائی ہے۔میڈیا پرسنز کی اپنی اپنی مجبوریاں اور مصروفیات ہیں، ایمبولینس گاڑیوں میں سوا ر ڈاکٹروں کے قتل کرنے کو برائی نہیں سمجھا جاتا، سکولوں میں اساتذہ کے گلے کاٹنا تو جیسے کوئی نیکی کا کام ہو۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی بندش کو ہی سارے مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ انسانیت تو خیر کب سے مر چکی اب تو ملک کا صدر، وزیراعظم یا چیف آف آرمی اسٹاف بھی دلاسہ نہیں دیتا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں تو ایسے مقامات کا رُخ ہی نہیں کرتیں۔یہ سب پڑھ کر یقیناً آپ کا ذہن فلسطین، غزہ اور یا پھر مقبوضہ کشمیر کی طرف چلا گیا ہوگا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ پاکستان کے غزہ کے بارے میں بالکل نہیں جانتے۔
گزشتہ روز میں تفتان میں تھا۔ وہاں سید معین سے میری ملاقات ہوئی۔ سید معین کا تعلق فلسطین یا مقبوضہ کشمیر سے نہیں بلکہ پارا چنار سے نکلا۔ انہیں اپنے گھر والوں سے ملنے کیلئے پارا چنار جانا تھا۔گاڑی چلنے لگی تو راستے میں بار بار موبائل کے سگنل آف ہو جاتے ۔ ٹھنڈی آہ بھر کر انہوں نے کہا کہ ہماری مشکلات اور ہمارے احساسات کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا!۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ بولے کہ ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ہم جیسے ہی انٹرنیٹ آن کرتے ہیں تو سب سے پہلے ایسی خبریں ڈھونڈنے لگتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے عزیزوں اور پیاروں پر کوئی نیا حملہ تو نہیں ہو گیا۔
سید معین کے مطابق مسافروں کی حفاظت پر مامور سیکورٹی اہلکاروں ، کانوائے اور مسافر گاڑیوں پر حملے کرنے والے کسی سے مخفی نہیں۔ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ پارا چنار کی روڈ کو بند کر کے نہتے مسافروں کو قتل کیا گیا ہے۔ محاصرے کی وجہ سے اس وقت بھی لوگ غذائی قلت اور دوائیوں کی کمی کے شکار ہیں۔ بچے بھوک کے مارے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں لیکن باہر کی دنیا نہیں جانتی کہ اس وقت پارا چنار میں کیا ہو رہا ہے۔ اس دکھ کو صرف وہی ماں محسوس کر سکتی ہے کہ جس کا لختِ جگر اُس کی آنکھوں کے سامنے کئی دنوں سے بھوکا اور پیاسا تڑپ رہا ہو۔
۳۰ اکتوبربروز بدھ کو پارا چنار کے حالات سے آگاہی کیلئے وائس آف نیشن کے زیرِ اہتمام ایک آنلائن سیشن کا اہتمام کیا گیا۔ سیشن سے پارا چنار سے تعلق رکھنے والے مولانا اخلاق حسین شریعتی اور مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکرٹری جنرل مولانا شید حسین جعفری نے گفتگو کی۔ راقم الحروف نے سیشن کے میزبان محترم حسن اقبال کی وساطت سے یہ معزز مہمانوں سے یہ سوال پوچھا کہ اتنی گھمبیر صورتحال میں عام پاکستانی کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے چونکہ پارا چنار در اصل افغانستان و پاکستان کی سرحد پر واقع ہے اور اب تک افغانستان کی طرف سے ہونے والی تمام جارحانہ کاروائیوں کا مقابلہ یہاں کے غیور عوام نے ہمیشہ ڈٹ کر کیا ہے۔ اگر یہاں کے لوگوں کو محصور کر کے نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ علاقہ باآسانی افغانستان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ زدہ علاقےکے سارےمتاثرین خواہ وہ شیعہ ہوں یا سُنّی ، وہ ہرگز تصادم، لڑائی اور جنگ نہیں چاہتے۔ وہ سب یہ جانتے ہیں کہ پاکستان رہے گا تو ہم بھی رہیں گے اور اگر یہ منطقہ افغانستان کے ہاتھوں میں چلا گیا تو پھر کسی کی بھی عزت و ناموس اور جان محفوظ نہیں رہے گی۔ چنانچہ یہاں کے سُنّی و شیعہ کئی مرتبہ سفید پرچم اٹھا کر امن کیلئےجلوس بھی نکال چکے ہیں۔
آنلائن سیشن سے گفتگو کرنے والے معزز شرکا کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں امن قائم نہ ہونے کی چند اہم وجوہات ہیں
سرحد پار سے طالبان کی جارحیّت اور مداخلت نیز پاکستانی حکام کے اندر دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ
لینڈمافیا کی طرف سے لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کر کے اُسے مذہبی رنگ دینا
لینڈ کمیشن کا اپنے کمیشن کیلئے زمینوں پر قبضہ کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی کرنا
مخصوص افراد کو آگے کر کے کسی بھی علاقے میں زمینی تنازعہ پیدا کرنا اور پھر اُس زمین کو متنازعہ قرار دے کر سرکار کا اُس زمین پر قبضہ کر لینا
قبائلی امن روایات کو مٹانے کیلئےنیز جرگے کی اہمیّت کو ختم کرنے کی خاطر جرگے میں شرپسند اور تکفیری عناصر کو دعوت دینا
اہلِ سُنّت کو نظرانداز کر کے ایسے تکفیری حضرات کو جو مکالمے، بھائی چارے اور رواداری پر یقین ہی نہیں رکھتے، اُنہیں اہلِ سُنّت کا نمائندہ قرار دینا
اہلِ تشیع کی نمائندہ تنظیم انجمن حسینیہ کے فیصلوں کو سارے اہلِ تشیع دل و جان سے قبول کرتے ہیں لیکن اہلِ سُنّت کی نمائندہ تنظیم انجمن فاروقیہ کو ملک دشمن اور طالبان نواز عناصر کی طرف سے بے بس اور اختیار کرنا
یاد رہے کہ بے شک مذکورہ بالاوجوہات کے علاوہ بھی پارا چنار میں امن قائم نہ ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن مذکورہ وجوہات فوری توجہ کی طالب ہیں۔ پارا چنار کے غیور اور باشعور عوام اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی صفوں سے شرپسندوں اور تکفیری عناصر کو تو باہر کریں۔ ان کا ایسا کرنا خود قیامِ امن کیلئے ایک ناگزیر قدم ہے۔ بدامنی کی وجوہات گننے، جاننے اور پوچھنے میں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جس ملک میں کسی اونٹ کی ایک ٹانگ کٹنے پر واویلا مچ جاتا ہے، آج اُسی ملک کے ایک انتہائی حساس سرحدی علاقے میں طالبان اور تکفیری عناصر کی طرف سے ہزاروں نہتے لوگوں کا محاصرہ کر کے انہیں تڑپا تڑپا کر مارا جا رہا ہے لیکن حکومت، میڈیا، سوشل میڈیا، سائنسدان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سب خاموش ہیں، اور سب خاموش تماشائی ہیں۔
طالبان اور تکفیریوں کے مظالم پر خاموش پاکستانی تماشائیوں کو پارا چنار کا ہر باشندہ اپنی زبانِ حال سے یہ پیغام دے رہا ہے کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں