قراقرم انٹرنیشنل یونی ورسٹی گلگت میں بیتے لمحات۔ | تحریر: اقبال حسین اقبال‎

یہ ہماری شباب اور عین جوانی کی بہار تھی۔مارچ کا مہینا اور 2015ء کا سال تھا۔تاریخ ٹھیک سے یاد نہیں’مگر وہ دل نشین لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے’ جب میں نئے ارادوں، نئے جذبوں، امیدوں اور حسرتوں کو لیے جامعہ قراقرم کی دہلیز پر پہلا قدم رکھا تھا۔صبح دس بجے کا وقت تھا۔ سورج اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔گلگت میں مارچ کا مہینا بہت خوش گوار ہوتا ہے۔اس دن فرحت بخش روشنی چار سُو پھیلی ہوئی تھی۔میں مرکزی دروازے سے یونی ورسٹی میں داخل ہوا۔انٹرنس پر کھڑا چار جانب اجنبی نگاہوں سے یہاں وہاں، اِدھر اُدھر نظارے کرنے لگا۔یونی ورسٹی کی رنگینیاں فصل بہار کی طرح خوب صورت معلوم ہوتی تھی۔میرے آس پاس طلبہ کا جم غفیر بہتے دریا کی طرح رواں دواں تھا۔یار دوستوں کی ٹولیاں اٹھکیلیاں کرتے ہوئے آگے گزر رہی تھی۔سہیلیاں چُہلیں کرتی اہلی گٙہلی پِھر رہی تھیں۔اس اجنبی دنیا میں مجھے کسی شناسا چہرے کی تلاش تھی جو مجھے اس مافوق الفطرت دنیا کے بارے میں بتائے۔

اسی عالمِ اجنبیت میں یک دم میری نگاہ برکت علی بھائی پر پڑی جو انگریزی زبان و ادب کے طالب علم تھے۔انھوں نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور ہمیں خوش آمد کہا۔ہم آگے سبزہ زار کی جانب بڑھنے لگے’ جو انٹرنس سے صرف پچاس قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سبزے کا ایک تنکا بھی موجود نہیں تھا مگر ایک کینٹین ضرور تھی۔کینٹین کے اردگرد لکڑی کی بنی سادہ کرسیوں پر طلبہ اور یونی ورسٹی سٹاف چائے پیتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

اس دن ہم نے آدھی یونی ورسٹی کی سیر کی۔یونی ورسٹی ایک صحرا نما جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔پانی کی قلت رہتی ہے۔آپ کو صبح دس بجے پودے مرجھائے نظر آئیں گے۔مالی حضرات بیڑی پی کر سائے میں لیٹے رہتے ہیں۔ان کی حد درجہ غفلت سے پودوں کی نگہداشت درست انداز میں نہیں ہو رہی ہے۔2002ء کو جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جامعہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔جس میں تادمِ تحریر 26 ڈیپارٹمنٹس میں سات ہزار کے قریب طلبہ زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔یہ گلگت بلتستان کی واحد جامعہ ہے جس کی ذیلی شاخیں ہنزہ اور غذر میں کام کر رہے ہیں۔

میری ایڈمیشن ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی تھی۔برکت بھائی مجھے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ لے گئے جو دوسری منزل پر محض دو کلاسوں پر مشتمل تھا۔ایک تنگ کمرہ نما آفس جس میں پروفیسرز نظم و نسق کا فریضہ انجام دیتے تھے۔بہرحال دن گزرتے گئے ہمیں نئے ہم جماعتوں اور اساتذہ سے آشنائی ہوتی گئی۔

یونی ورسٹی تک پہنچنے کی خواہش ہر طالب علم کے دل میں ہوتی ہے مگر صرف دو فیصد طلبہ کی یہ خواہش پوری ہوتی ہے۔یہاں آنے کے بعد انسان کے دل و دماغ کے بند دریچے کھل جاتے ہیں۔مختلف اسکالرز، ڈاکٹرز، مختلف ذہانتوں کے طلبہ، دوستوں کی گروپس اور ایک آزاد ماحول میں بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔مجھے یہاں آنے کے بعد یوں لگا جسے ٹھہری ہوئی زندگی میں ارتعاش سی پیدا ہو گئی ہو۔یوں محسوں ہوا جیسے سمندر کے پانیوں میں یک دم طلام پیدا ہو گیا ہو۔

یہاں میں ان مہربان دوستوں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے ساتھ میں نے ایک بہترین وقت گزارا ہے۔

یوسف بھائی ہمارے پہلے سمسٹر میں سی آر بنے تھے۔یہ ہمیشہ ایکٹیو رہتے تھے۔سارے طلبہ اپنے کاموں میں مصروف رہتے اور یہ خدا کا بندہ ہم سب کے لیے اسائنمنٹس پرنٹ کرانے شاپ کی طرف چلا جاتا تھا۔انھوں نے جس طرح کام کیا یقیناً قابل تعریف ہے۔بنیادی طور پر استور سے تعلق تھا اسی لیے کچھ شوخی شرارت اور چالاکی فطرت میں شامل تھی۔ آج بھی ان کا نمبر میرے سیل فون میں سر یوسف کے نام سے محفوظ ہے۔

مدثر علی بھائی اپنی منفرد شوخیوں، شرارتوں اور فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور تھا’ جو ہر وقت اپنی اداکاری سے ہمیں ہنساتا رہتا تھا۔کلاس کے بورنگ ماحول کو بھی اپنی اٹھکھیلیوں سے مزاح میں بدل دیتا تھا۔

نصرت صاحب کا ذکر کیے بغیر تحریر نامکمل ہے۔یہ ہمارے سینئر تھے۔اسی یونی ورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشن شپ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکے تھے اور بعد میں ہمارے ساتھ ایم اے ایجوکیشن کا کورس بھی پڑھ رہے تھے۔یہ منفرد کردار اور بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہونے کے ساتھ سیاست سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ان کے اردگرد ہر مذہب و مسلک کے افراد کا جم غفیر لگا رہتا ہے۔زبان و بیان میں خاص مہارت حاصل تھی۔کسی بھی موضوع پر ٹھوس دلائل سے گفتگو فرماتے تھے اور سامعین کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرتے تھے۔کھلے دل کے مالک تھے۔سچ پوچھو تو یہ ڈیپارٹمنٹ کی شان تھے۔

غلام مرتضیٰ بھائی کا تعلق ضلع نگر کی حسین اور دلربا وادی ہوپر سے تھا۔یہ ہوپر اسوہ اسکول میں وائس پرنسپل کے طور پر فرائض ادا کر چکے تھے۔انتہائی شریف النفس، ملنسار، خوش اخلاق انسان ہونے کے ساتھ بہترین مہارتیں بھی رکھتے تھے۔یونی ورسٹی کے ابتدائی دنوں میں جب مجھے کمپیوٹر پر اسائنمنٹ بنانے میں دشواری پیش آئی تو انھوں نے بڑی خلوص دل سے ہماری مدد کی۔ایک دفعہ ہم یونی ورسٹی سے ان کے گاؤں مطالعاتی دورے پر گئے تھے۔اسوہ سکول میں ہم رکے، یہیں ہمارے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا۔یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ہوپر کو دیکھا۔واقعاً ہوپر حُسن فطرت سے مالا مال دیکھنے سے تعلق رکھنے والی وادی ہے۔

اسی طرح دوستوں کی فہرست کافی طویل ہے۔جن میں نوید صاحب موٹا جسم، نکلا توند کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔بہت ہی مخلص انسان تھے۔گروپ میں موجود ہوں تو بہترین ماحول فراہم کرتے تھے۔ ہمت ولی بھائی کا تعلق پھنڈر سے، ادریس علی بھائی استور سے، رضوان علی، محمد عارف اور فضل الرحمان چلاس سے تعلق رکھتے تھے۔اسرار بھائی شروٹ سے تھے۔پونیال روڈ پر سبزی کی دکان چلاتے تھے۔کبھی کبھی ہم سب مل کر ان کی دکان پر حاضری لگاتے تھے اور اسرار بھائی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری خوب تواضع کرتے تھے۔آصف علی بھائی دنیور سے تھے۔کلاس میں سب سے چھوٹے تھے۔ہم سب میں محبتیں بانٹ دیتے تھے۔ایک دفعہ ہم بگروٹ گئے تھے۔آصف بھائی اپنے پیسوں سے چار کلو گوشت لے کر اس نیت سے آئے تھے کہ ہم وہاں ایک دن آرام کریں گے مگر بدقسمتی سے ہم گوشت کسی گھر میں چھوڑ کر اسی دن گلگت واپس آئے۔

ان لمحات کو گزرے کئی سال بیت گئے ہیں۔میں آج بھی جب ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر لیتا ہوں تو تخیل کی دنیا مجھے ماضی میں لے جاتی ہے۔میرے کانوں میں یہاں وہاں سے وہی شناسا آوازیں آنے لگتی ہیں۔وہ چہرے میرے دماغ کے خفیہ گوشوں سے نکل آتے ہیں جن کے ساتھ میں نے خوب صورت وقت گزارا تھا۔وہ ہمارے بھائیوں جیسے دوست’ جن کے ساتھ گزرا ہر وقت ہمارے لیے بہت یادگار تھا مگر وہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں کھو گئے ہیں۔

یہی زندگی کی حقیقت ہے کہ دن تیز رفتار ٹرین کی طرح تیزی سے گزر رہے ہیں۔ہر نیا دن اپنے ساتھ ایک نئی یاد کو لئے غروب ہوتا ہے۔بعض لمحات ہمارے دل و دماغ کے لوح پر کچھ یوں نقش ہوتے ہیں کہ ہم انھیں چاہ کر بھی مٹا نہیں سکتے۔قراقرم انٹرنیشنل یونی ورسٹی گلگت میں گزرے لمحات میری زندگی کا ایک روشن پہلو ہے۔جنھیں میں یاد کرتا ہوں تو میرے دکھ، پریشانیاں اور اُداسیاں ایک ہلکی سی مسکراہٹ میں بدل جاتے ہیں۔وہ یادیں میرے دل کو راحت پہنچاتے ہیں۔پھر کبھی کبھی سوچنے لگتا ہوں کہاں گئے وہ لوگ، کہاں ہیں وہ دلفریب لمحات جو میرے ساتھ میرے سائے کی طرح ہوا کرتے تھے۔ہم زندگی میں اجنبی چہروں سے کیوں ملتے ہیں؟مل کر کیوں بچھڑ جاتے ہیں اور پھر وہ بیتے پل درد بن کر ہمیں کیوں ستاتے ہیں؟یہی خیال ہمارے جسم میں اداسی کی ایک لہر پیدا کر دیتا ہے۔

ملاقاتیں نہیں ممکن مجھے احساس ہے لیکن

یہ دل تمہیں یاد کرتا ہے بس اتنا یاد رکھنا تم

IHI
اقبال حسین اقبال

اقبال حسین اقبال کی مزید تحریریں پڑھیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link