کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر۔| تحریر: پروفیسر فلک ناز نور
سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
مطالعے یا کتب بینی کی اہمیت
کتابیں ہر طالب علم کی زندگی میں اسے تحیل کی دنیا سے متعارف کرانے، دنیاکے بارے میں معلومات فراہم کرنے، لکھنے ، پڑھنے اور بولنے کی صلاحیتوں کو بہتر کرنے اور یاداشت و ذہانت کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری زندگی میں کتاب کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اچھی کتب نہ صرف ہمارے ذہنی افق کو وسیع کرنے میں مدد یتی ہیں بلکہ ہمیں اپنے ارد گرد کی دنیا سے جوڑنے کے دروازے کا کام بھی کرتی ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ذہنی طور پر متحرک رہنا انسان کی مجموعی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ مطالعہ انسانی دماغ کو فعال رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آن ایجنگ آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے دماغ کو مصروف رکھنے کے طریقے کے طور پر کتابیں اور میگزین پڑھنے کا مشورہ دیتا ہے۔غرض کتاب اور مطالعے کی اہمیت ہر لحاظ سے مسلمہ ہے۔
مطالعہ کے بارے میں بڑی شخصیات کیا کہتی ہیں؟
دنیا کےتمام بڑے کامیاب لوگ مطالعے کے عادی تھے اور اپنے مشاہدات کی روشنی میں کتب بینی پر خوب صورت اور دل پر نقش ہونے والے اقوال آج بھی زندہ ہیں۔
(امام خمینی ) جسم اور روح کی پرورش کتابوں سے ہوتی ہے، کتابیں تہیذیبوں کا نچوڑہیں
جس طرح بیج کاشت کرنے سے زمین زرخیز ہوجاتی ہے، اسی طرح مختلف عنوانات پر کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ انسان کے دماغ کو منور کر دیتا ہے۔ (ملٹن)
دنیا میں ایک باعزت اور ذی علم قوم بننے کےلیے مطالعہ ضروری ہے مطالعے میں جوہر انسانی کو اجاگر کرنے کا راز مضمر ہے (گاندھی جی)
دوستوں کی طرح کتابوں کا انتخاب بھی پوری احتیاط اور توجہ سے کرنا چاہیے اور ہمیشہ اچھی کتابیں پڑھنی چاہییں (حکیم محمد سعید)
فروغ مطالعہ کیسے ممکن ہے؟
والدین کی ذمہ داری
والدین کو بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی پڑھنے کی عادت ڈالنی چایئے۔ بعض مائیں بچوں کو موبائیل فون تھما دیتی ہیں۔ برقی آلات کی روشنی چھوٹے بچوں کی آنکھوں اور دماغ کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جبکہ کتب کے مطالعے سے بچے نئے الفاظ سیکھتے ہیں۔بچوں کو نصابی کتب کا ساتھ ساتھ دیگر معلوماتی ، تفریحی اور اصلاحی کتب بھی پڑھنے کی ترغیب دینی چایئے۔ ہمارے ہاں کچھ لاعلم والدین جب بچوں کے ہاتھ میں غیر نصابی کتاب یا رسالہ دیکھتے ہیں تو وہ اسے وقت کا ضیا ع سمجھ کر بچوں کو ٹوکتے ہیں حالانکہ جدید تحقیق کے مطابق جو بچے نصاب کی کتب کے ساتھ ساتھ دوسری کتب پڑھتے ہیں وہ ذہنی طور پر ایسے بچوں سے بہت آگے ہوتے ہیں جو صرف کورس کی کتب ہی پڑھتے ہیں لہذا والدین کو بھی چاہیے کہ وہ مہنگے مہنگے موبائیل فون کے بجائے بچوں کو کتابیں تحفے میں دیں۔
سکولوں اور جامعات کا کردار
بچوں کو ابتدا سے ہی کتب بینی کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ طالب علموں کی پراگرس رپورٹس / گریڈ شیٹ میں کتب پڑھنے کے نمبر ہونے چاہیے۔ اردو ، اسلامیات کے اساتذہ ہفتہ وار بک ریڈنگ سیشن بھی رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ادارے پریس فار پیس نے ملک کے دور دراز علاقوں کے چند منتخب سکولوں میں اس سرگرمی کا انعقاد کیا ہے جس کے نہایت مفید نتائج سامنے آئے ہیں۔
سکولوں ، کالجوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں ٹیبلو جیسی مہنگی سرگرمیوں کے بجائے بزم ادب، بیت بازی اور کتب بینی کے مقابلوں کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
حکومتی اقدامات
حکومت کو کاغذ، اسٹیشنری پر بے ٹیکس کو کم یا ختم کرنا چائیے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافے کے ساتھ تعلیم سے محروم بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی کے علاوہ تعلیمی نظام میں کتاب پڑھنے اور تخلیقی مطالعے کی مہارت کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امتحانی نظام اور ملازمتوں کے امتحان میں بھی ایم سی کیوز نوعیت کے ٹیسٹوں کے بجائے ایسا امتحانی نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس میں نمایاں کامیابی گہرے مطالعے پر انحصار کرتی ہو۔
لائبریریوں کا قیام اور ان میں بچوں کی سرگرمیوں کا انعقاد
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بچوں کے لیے علمی اور تفریحی سرگرمیوں کی کمی ہے۔ حکومت کو ہر کمیونٹی میں پبلک لائبریریاں بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔لائبریریوں میں بچوں تفریح اور تعلیم سے متعلق سرگرمیاں ہوں گی تو بچوں کا رشتہ کتاب، لائیبریری اور علم سیکھنے سے گہرا ہوگا۔
اس کے علاوہ جو لوگ کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ان کتب خانوں میں جاکر اپنی پسند کی کتاب حاصل کر سکتے ہیں تاکہ علم کی پیاس بجھا سکیں۔
کتاب میلوں کا انعقاد اور بک سٹال کی فیسیس
پریس فار پیس پبلی کیشنز کے پلیٹ فارم سے چند بڑے اور چھوٹے کتب میلوں میں شرکت اور بک سٹالز کے انتظام کا عملی تجربہ حاصل ہے۔ میرے مشاہدے اور تجربے کے مطابق بعض تعلیمی اور دوسرے ادارے بک فئیرز کا اہتمام کرتے ہیں تاہم ان کی فیسیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں کتب میلوں کے دوران میلے میں آنے والے لوگوں پر سیکورٹی کے نام پر بے جا بندشیں لگاتی ہیں جنھیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بک فئیرز کے فیسیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کئی چھوٹے اشاعتی ادارے ، ادبی انجمنیں اور “سیلف ہیلپ ماڈل” پر کتب شائع کرنے والے مصنفین بھی ان بڑے شہروں کے کتب میلوں میں شرکت کی خواہشن مند ہوتے ہیں لیکن ان کتب میلو ں کی بھاری فیسوں کے باعث شرکت نہیں کرسکتے۔
اگر ہم کتاب بینی کے فروغ کےلیے واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں ذاتی اور حکومتی سطح پر درج بالا اقدامات پر فوری عمل کرنا ہوگا ۔
پروفیسر فلک ناز نور