ناہید گل کے افسانچے ” چہ میگوئیاں”،۔ | تبصرہ نگار: تہذین طاہر
چہ میگوئیاں کی مصنفہ ناہید گل شاعرہ و افسانچہ نگار ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کی چوتھی کتاب ہے۔ اس سے پہلے ان کی جو تین کتب منظر عام پر آچکی ہیں ان میں”ٹوبہ ٹیک سنگھ”(مضامین پر مشتمل کتاب)، فرشتہ تو نہیں ہوں(شاعری)، جادوئی قلم(کہانیاں) شامل ہیں۔
افسانچوں پر مشتمل کتاب”چہ میگوئیاں“ دورِ حاضرکے حالات کا زہریلا رُخ پیش کر رہی ہے۔زہریلا کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کیونکہ معاشرے کی بدکاریوں، دھوکے بازیوں اور جھوٹ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود ہم خاموش تماشائی بنے ان سب کو رفتہ رفتہ پروان چڑھا رہے ہیں۔قلم کی طاقت سے ہر ظلم اور نا انصافی کا پردہ چاک کرنے کے باوجودیہ زہر نہ صرف پورے معاشرے میں بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
آج اگر فلسطینیوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو سوچا جا سکتا ہے کہ صدیوں پہلے ایسی ہی درندگی ہمیں کربلا کے میدان میں بھی دکھائی گئی تھی۔تب بھی انسانیت منوں مٹی تلے دم توڑ گئی تھی اور آج بھی انسانیت کا نام و نشان کہیں نظر نہیں آتا۔ روتے بلکتے بچوں، چیختی چلاتی ماؤں کی آہ و بکا عرش تو ہلا رہی ہے لیکن فرش پر چلنے والے انسانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ خدا دشمن کو جلد نیست و نابودکرے ۔ یہ دشمنی بھی ایک زہر ہی ہے جو وقت کے ساتھ دنیا میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف اگر حکومتیں کچھ نہیں کر رہیں تو قلم کی طاقت رکھنے والے افراد اپنی سی کوشش سے سوئی ہوئی امت مسلمہ کو جگانے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس خدمت میں مصنفہ ناہید گل بھی اپنا حصہ بخوبی ڈالتی نظر آ رہی ہیں۔جس کی ایک مثال اس کتاب کا انتساب ہے۔
کتاب کا انتساب” ہر اس انسان کے نام کیا گیا ہے جو مظلوم فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کر رہا ہے“۔
یہ کتاب افسانچے، یک سطری افسانچے، معاشرتی کہانیاں اور پر اسرار کہانیوں پر مشتمل ہے۔ زیر نظر کتاب کے بارے میں شفا چودھری لکھتی ہیں
ناہید گل کے افسانچے ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے المیوں کو نہایت خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کی زبان عام فہم ہے۔ قاری بیانیے کے اتار چڑھاؤ کو بخوبی اپنے اندر جذب کر کے افسانچے کا لطف لے سکتا ہے۔ اردو افسانچے میں بہترین اختتامی پنچ لائن افسانچے کا اہم جزو ہے، ناہید گل کے اکثر افسانچوں میں اس کا بہتر استعمال دکھائی دیتا ہے۔ ان کے موضوعات عام انسان کی زندگی سے اٹھائے گئے ہیں اور نہایت باریک بینی سے ان میں چھپے ہوئے المیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان میں لکھنے کی خداداد صلاحیت ہے”۔
ناہید گل صاحبہ ”چہ میگوئیاں“ کے بارے میں بتاتی ہیں کہ اس میں موجود تمام افسانچے زیادہ تر حقیقت پر مبنی ہیں۔کتاب میں موجود افسانچوں کے عنوان کچھ اس طرح ہیں۔
ہجوم، داغ، سانجھے رشتے، بانجھ، خون کے رشتے، دعوتِ ولیمہ، بد چلن، چھوٹی غلطی بڑی سزا، نا محرم، رزقِ حرام، سہاگن، جائیداد، چوڑیاں، قیامت ، ہمسفر، ہانڈی روٹی، انتظار، لہنگاوغیرہ۔ یہ سب اور اس طرح کے بے شمار موضوعات جن پر مصنفہ نے لکھا وہ آج کے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے۔ کتاب میں موجود افسانچے مختصر لیکن ایک مکمل سبق لیے ہوئے ہیں۔ اگر مصنفہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر افسانچے حقیقت پر مبنی ہیں تو میں ایک قاری کی حیثیت سے کہوں گی کہ تمام ہی افسانچے حقیقی ہیں کیونکہ میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں اور اپنی آنکھوں سے یہ سب نہیں تو بہت سے واقعات دیکھ چکی ہوں۔معاشرے کے حالات و واقعات کو اتنے خوبصورت انداز میں پیش کرنے کے لیے میں دل سے ناہید گل صاحبہ کی مشکور ہوں۔ اور دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ شاید کہ ہمارے لکھاریوں کی مدد سے ہی لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اچھائی بُرائی میں تمیز جان سکیں۔
کتاب کا خوبصورت اور رنگین سرورق آنیہ ایس خان کی محنت ہے۔کتاب پریس فار پیش پبلی کیشنز کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو نہ صرف نئے پرانے لکھاریوں کوپروموٹ کررہا ہے بلکہ قاری کے دل میں بھی یہ جذبہ ابھار تا ہے کہ وہ بھی لکھ سکتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ادارہ کہتا ہو”اپنے خیالات اور جذبات کو الفاظ دیں ۔ انہیں پروان ہم چڑھائیں گے”۔