باپ بھی عاق ہو جاتا ہے جناب!۔ | تحریر: نذر حافی
پاکستان میں تقریباً ساٹھ فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ بچے کہاں جاتے ہیں؟ اس سے ہمارے حکمرانوں کو کوئی سروکار نہیں۔ یونیسکو کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے ایک افریقی ملک نائجریا کے بعد ہمارا دوسرا نمبر ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے قوم کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر لٹکی ہوئی ہے۔ دینی و شرعی اعتبار سے بچوں کی تعلیم و تربیت کے والدین ذمہ دار ہیں۔آئین اور دین دونوں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
البتہ مفتیان دین کا ایک ہی ہم و غم ہے۔ انہیں صرف یہ شوق ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ شادیاں بھی چار چار ہونی چاہیے۔ بچوں کے خرچ کی فکر نہ کریں، بچوں کو بچپن میں ہی مدرسوں میں بھیج دیں۔ مدرسوں میں بچپن میں بچوں کے ساتھ جو ہوتا ہے وہ اب سب کے سامنے آچکا ہے۔ کچھ مدرسوں میں داخل کرائے جانے والے بچے ایک خاص طبقے کی جنسی تسکین کیلئے مسلسل استعمال ہو رہے ہیں۔ والدین تو ویسے ہی دینی مدارس میں داخل کرانے کے بعد مُڑ کر بچوں کا حال نہیں پوچھتے ۔ یہ دینی مدارس پر والدین کا اندھا اعتماد ہے اور دوسری طرف اس سلسلے میں قانون بھی اندھا ہے۔ چنانچہ آج تک دینی مدارس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کسی مجرم کو قرار واقعی سزا دینے کی نوبت نہیں آئی۔ خود مولانا حضرات کے فتووں کے مطابق مدرسوں میں ایسے قبیح اعمال کے انجام دینے والوں کو کبھی ہ سولی پر لٹکایا گیا، نہ کوڑے مارے گئے، اور نہ سنگسار کیا گیا۔
آپ نے کچرا جمع کرتے بچوں کو دیکھا ہوگا، بھیک مانگتے ، ہوٹلوں پر کام کرتے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، ریڑھی ہنکاتے، چھابڑی لگاتے۔۔۔یہ قوم کے ہی بچے ہیں، روزانہ آپ کتنے ہی ایسے بچوں کو دیکھتے ہونگے۔ لوگ ان پر ترس کھاتے ہیں، اور انہیں پیسے بھی دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ان پر ترس کھانے والے لوگ کبھی ان کے “لاڈلےباپ “کے سراغ میں نہیں جاتے۔ کوئی نہیں ہے جو ان کے باپ کو یہ سمجھائے کہ بچوں کو سکول جانے دو، یہ ان کے پڑھنے کی عمر ہے۔ جس باپ کے بچے روزانہ پیسے لاکر اُس کی جھولی میں ڈالتے ہوں، وہ کیوں بچوں کو سکول بھیجے گا؟
ایسے بچے کہیں باپ کی انگلی پکڑ کر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور کہیں بھکاری مافیاز کیلئے بطور آلہ کار استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہی تو وہ بچے ہیں جو بڑے ہو کر ملک و قوم کیلئے وبال بنتےہیں۔ ان کے مستقبل کے بارے میں ریاست ۷۷ سال سے خاموش ہے۔گزشتہ ستتر سالوں میں ہمیں یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ جب یہ بچے بڑے ہو جائیں گے تو ریاست کا فریضہ ان بچوں کی سرکوبی کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ بے رحم اشرافیہ گزشتہ ستتر سالوں سے ان کی سرکوبی ہی تو کر رہی ہے۔ ہمارے بڑوں کو دشمن کے بچوں کو تو پڑھانے کی فکر ہے لیکن اپنی قوم کے بچوں کی صرف سرکوبی کیلئے اختیارات اور ہتھیار چاہیے۔
جو بچے سکول جاتے بھی ہیں ، اُن کیلئے معیاری تعلیم کی سہولت کہیں نہیں۔ معیاری تعلیم کا شجر ِممنوعہ غریب کی دسترس سے ہی باہر ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک وطن عزیز کی جنت میں یہ پھل فقط “اشرافیہ اور صاحبانِ زر کی نسلوں کیلئے” مخصوص ہے۔ آئندہ بھی سرکاری ادارے عام عوام کے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کیلئے کبھی سنجیدہ نہیں ہونگے۔ سرکار کا عوام کے بچوں کی تعلیم سے کوئی براہ راست مفاد جو وابستہ نہیں۔ چنانچہ ہمارے وطن میں تعلیم باقاعدہ ایک تجارت بن گئی ہے۔
ہمارے میڈیا اور میڈیا پرسنز نے بھی تعلیم کی جو خدمت کی ہے وہ آبِ زر سے لکھی جائے گی۔ ہمارے میڈیا نے عوام کو جتنا مرد مومن مرد حق ، ضیاالحق ، جئے بھٹو ، عافیہ صدیقی، جمائما خان ، اور کافر کافر۔۔۔ کے بارے میں ایجوکیٹ کیا ہے اگر میڈیا کے میدان میں کم از کم اتنی ہی اہمیت ، معیاری تعلیم کو دی جاتی اور عوام کو اتنا ہی تعلیم کے بارے میں شعور دیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔
ہمارے حکمرانوں کو تو فوٹو سیشنز سے فرصت نہیں اور میڈیا کی ترجیحات میں تعلیم بالکل نہیں۔بھکاری کمیونٹی اب جدید دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل رہی ہے۔ آئےروز سوشل میڈیا پر طرح طرح کے عناوین اور دکھ بھری تصاویر کی آڑ میں گدائی کا پیشہ فروغ پا رہا ہے۔ بھیک مانگنے کے ہزار روپ ہیں لیکن بھیک کسی مسئلے کا حل نہیں۔
باہر کی دنیا سے تعلیم کیلئے جو فنڈز آ رہے ہیں وہ، وہیں جا رہے ہیں جہاں غریب کی پہنچ ہی نہیں۔ غریب یہ بھی نہیں جانتا کہ تعلیم کسے کہتے ہیں وہ کیا جانے کہ تعلیمی فنڈ کیا ہوتا ہے؟ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے؟
لوگوں کو جگانے، بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ “دین” صرف چار شادیاں کرنے اور زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا نام نہیں بلکہ بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانا یہ بھی والد کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیّت کے سلسلے میں کوتاہی، سستی، اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والے والدین بھی دینی اعتبار سے خدا و رسول ؐکے مجرم ہیں۔
زیادہ بچے پیدا کر کے مدارس میں ڈالتے جانے سے بچوں کے حقوق ادا نہیں ہوتے۔ بچوں کے حقوق میں سے اُن کے والدین پر ایک اہم حق اُنہیں ہر طرح کے خوف و ہراس سے تحفظ دینا ہے۔ اس وقت معاشرے میں جو چل رہا ہے اُس کے مطابق “جنسی ہراسمنٹ سے تحفظ” یہ بچےکا والد پر حق ہے۔ وہ تعلیم و تربیت جس میں بچے کو جنسی ہراسمنٹ یا جسمانی تشدد کانشانہ بننا پڑے وہ تعلیم و تربیت دینی اعتبار سے “دینی ہی نہیں” ہے۔
بچے کو نافع علم سکھانا یہ والدین پر خصوصاً والد پر بچے کا فطری اور دینی حق ہے۔ ایسی تعلیم ہر گز نافع نہیں ہے کہ جو بچوں کو مانگ کر ، چھین کر اور دوسروں سے ہتھیا کر کھانے کا عادی بنائے۔ہم ابھی تک اپنے ہاں یہ بھی لوگوں کو نہیں سمجھا سکے کہ جیسے والدین کے حقوق ہیں ،اسی طرح بچوں کے بھی حقوق ہیں۔ دینی اعتبارسے جیسے والدین کے حقوق ادا نہ کرنے والے بچے عاق قرار پاتےہیں ویسےہی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنے والے والدین بھی خدا و رسول ؐکے ہاں عاق ہیں۔
بالاخر ہم معاشرے میں تعلیم و تربیت کے شعور کے فروغ کیلئے کچھ کرنے کا سوچیں تو سہی۔ چلیں اور نہیں تو آج سے کم از کم اتنا ہی لوگوں کو بتانا شروع کر دیں کہ اپنے بچے کیلئے علم نافع کا بندوبست نہ کرنے والا والد بھی گنہگار ہے، اور اپنے بچے کے حقوق ادا نہ کرنے والا باپ بھی عاق ہو جاتا ہے۔