پالف آسٹریلیا کی دوسری علامہ اقبال انٹرنیشنل کانفرنس 2025 بروز ہفتہ 6ستمبر کومنعقد ہوئی
ہم سماج پاکستان ( رپورٹ سیدہ ایف گیلانی ) پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف) نے دوسری علامہ اقبال ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے مختلف سیشنزسے پاکستان، ہندوستان، کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک کے مقررین نے اقبال کی فکر اور ادبی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر مقالے پیش کیے۔ کانفرنس کا آغاز محمد ضیاالحق نے سورہ العصر کی تلاوت سے کیا اور ڈاکٹر آرزوؔ کا نظم کیا ہوا سورہ کا ترجمہ بھی پیش کیا۔کانفرنس کا بنیادی موضوع ”فکر اقبال اکیسویں صدی کے عالمی تناظر میں“ منتخب کیا گیاتھا جب کہ خودی ، کریٹیویٹٰی اینڈ گلوبل چیلنجیزکانفرنس کا سلوگن تخلیق کیا گیا۔سربراہ پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف) ڈاکٹر افضل رضوی نے استقبالیہ میں کہاکہ آج ہم یہاں محض ایک علمی اجلاس کے لیے جمع نہیں ہوئے، بلکہ اس عظیم مفکرِ مشرق، شاعرِ اسلام، حکیم الامت، مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و نظریات کو اکیسویں صدی کے عالمی تناظر میں سمجھنے اوران نظریات کو آگے پھیلانے کے عزم کے ساتھ جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس نہ صرف علمی مباحث کو فروغ دے گی بلکہ نئی نسل کو اس بات کی بھی ترغیب دے گی کہ وہ علامہ اقبالؒ کے پیغام کو اپنے فکر و عمل کا حصہ بنائے۔ آج کے دورِ اضطراب میں ہمیں اسی فکر کی ضرورت ہے جو انسانیت کو امید، یقین اور عمل کا راستہ دکھا سکے۔کانفرنس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے کی۔انہوں نے اپنی اوپننگ سپیچ میں پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پالف کے ذمہ داران ہمارے شکریہ کے بے حد مستحق ہیں جودیار غیر میں رہتے ہوئے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے عملی جدوجہد کررہے ہیں۔یہ کانفرنس ان کی ان تھک محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے تو اقبال جیسا مرد قلندر، عظیم شاعر و مفکراور مصور عطا کرتا ہے۔ اقبال نے آج سے 108سال قبل 9نومبر1877ء کو جنم لیا تھا۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ اس روز اقبال نے نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت نے جنم لیاجوطویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ایک عظیم مدبر، فلسفی اور شاعر کی حیثیت سے ہمارے درمیان موجود ہے۔اقبال کی شاعری محض انسانی عمل نہیں بلکہ اس میں ان کے اندر موجود شاعر کی آواز محسوس ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر ایک شاعر اور فلسفی پیدا ہوئے۔فکر اقبال بیسوی صدی کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ اکیسوی صدی اور اس کے بعد کے دور کے لیے بھی اسی طرح اقوام عالم کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ اقبالؔ وہ نابغہئ روزگار تھے جن کی علمی و ادبی و ساسی فکر نے برصغیر کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکی، ان میں ملی خودداری کو اجاگر کیا،مسلمانوں کو خود شناسی کا سبق سکھانے کے لیے فکری جہاد کیا۔ تصور پاکستان کا خواب دیکھا اس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الہٰ آباد منعقدہ 29دسمبر 1930ء کے صدارتی خطبہ میں کیا۔
کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر آرزوؔ سیکریٹری جنرل پالف نے علامہ اقبال کے حضور منظوم نذرانہئ عقیدت پیش کیا۔
تھے نوحہ کناں عالم امکاں کے نظارے
تھے خاک میں ڈوبے ہوئے ملت کے ستارے
ایسے میں یہ اعلان ہوا عرش بریں سے
اقبال کو بھیجا گیا اس فرشِ زمین پے
مشرق کا وہ پیغام تھا اور بانگ درا تھی
تھا خواب جو اقبال کا، خالق کی رضا تھی
اقبال کے افکار میں تعمیرِ وطن ہے
تخلیق کے اس خواب کی تعبیر وطن ہے
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقبال اکیڈمی پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالراؤف رفیقی نے کہا کہ آج پاکستان اور دنیا بھر میں یوم ولادت سید الانبیاﷺ منایا جارہاہے۔ اس حوالے سے اس کانفرنس کی ایک نسبت پیدا ہوئی ہے کہ علامہ جو سچے عاشق رسول ﷺ تھے ان کا پیغام درحقیقت سنت مصطفوی ﷺ کا احیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال کا پیغام جغرافیائی حد بندیوں سے ماورا ہے۔انہوں نے پالف کو کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ اقبال ایسا نابغہ روز گار تھا جو روز روز پیدا نہیں ہوتا۔ اقبال نے اپنے نظریات سے صرف مسلمانوں ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ ان کر کی فہم وفراست اور دوربینی نے دنیا بھر کے ذی عقل انسانوں کو بھائی چارے اور مکالمے کا راستہ دکھایا اور صبر واستقلال کی تلقین کی جس کی بدولت تصادم سے بچا جاسکتا ہے اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ایک دوسرے کی عزت ِ نفس کا احترام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت میں اقبال ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے جس میں امن ہی امن ہو اور کوئی انسان دوسرے انسان کا دشمن نہ ہو۔
ّّّّّّ کانفرنس میں جن اہم تصورات اور نظریات پر روشنی ڈالی گئی ان میں فلسفہ خود: اقبال کا تصورِ خودی، خود آگاہی اور انسانی صلاحیتوں کی تکمیل،جبر و قدر: اقبال کا نقطہ نظر کہ انسان کے اعمال اور تقدیر میں کیا توازن ہے، اسلامی احیاء اور جدت: مسلم معاشروں کے لیے اقبال کا وژن، مسلم اُمت کے معاصر مسائل اور اُن کے حل، اقبال کا عورت کے کردار اور اُس کی معاشرتی خدمات سے متعلق تصور، اقبال کی فکر کو مسلم معاشروں کو درپیش موجودہ چیلنجز کے حل میں کیسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے؟، اکیسویں صدی میں اقبال کے خیالات کی معنویت کیا ہے؟، خودی اور خودمختاری کے تصورات کس طرح مسلم قوموں کو جیوپالیٹیکل مسائل پر قابو پانے میں مدد دے سکتے ہیں؟، فلسطین، کشمیر اور افغانستان جیسے مسائل پر اقبال کے فلسفے کا کیا کردار ہے؟ شعبہ اردو کے چیرمین اورڈین _ انسٹیٹیوٹ آف لینگوایجزاینڈ لینگو ئسٹکس ہیں۔
مقررین نے کہا کہ علامہ محمد اقبال ایک دور اندیش شاعر اور فلسفی تھے جن کے خیالات آج بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔فلسفہ خودی انسان کی صلاحیت، عمل اور اپنی تقدیر خود بنانے کی طاقت پر زور دیتا ہے۔اقبال کی فکر مشرقی اور مغربی فلسفیانہ روایتوں کے مابین پل کا کردار ادا کرتی ہے اور اسلامی بنیادوں کو برقرار رکھتی ہے۔کانفرنس کا مقصد اقبال کے افکار کو مسلم اُمت کے موجودہ مسائل سے جوڑنا تھا۔اقبال کی فکر نوجوان نسل کے لیے رہنمائی اور تہذیبی و فکری احیاء کا فریم ورک مہیا کرتی ہے۔
راقم الحروف نے عورت کے بارے میں اقبال کے نظریات پر تفصیلی مقالہ پیش کیا۔ اُنہوں نے وضاحت کی کہ اقبال عورت کو بلند مقام دیتے تھے اور اُسے قوم سازی میں بنیادی حیثیت دیتے تھے۔ اقبال کے نزدیک عورت آئندہ نسلوں کی معمار ہے اور ماؤں کی اسلامی تربیت کے بغیر معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔ اقبال نے ایک طرف بعض مسلم معاشروں کی غیر ضروری پابندیوں پر تنقید کی تو دوسری طرف مغربی ماڈل کو بھی رد کیا جو عورت کو خاندانی ذمہ داریوں سے کاٹ دیتا ہے۔ وہ عورت کی تعلیم اور ترقی کے حامی تھے مگر اسلامی توازن کو ضروری سمجھتے تھے۔ اُن کی شاعری میں مسلم خواتین کی تاریخی مثالیں بطور رول ماڈل سامنے آتی ہیں۔
غوثیہ سلطانہ نوری نے کانفرنس میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال ایک انقلابی مفکر اور سائنسی طرزِ فکر کے حامل عالم تھے جنہوں نے ”خودی” یعنی ”خود شناسی” کے نظریے کو پیش کیا۔ اُن کا فلسفہ خودی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ کائنات خودی کے ارادے کی تابع ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو انسان میں خود شناسی، اپنے جوہر کو پہچاننے، اور اپنی بھرپور صلاحیتوں اور مقصد کے حصول کی جدوجہد کی ترغیب دیتا ہے۔ اقبال، جو فارسی اور اردو کے عظیم شاعر تھے، اُن کی ترقی پسند سوچ قرآن حکیم کی تعلیمات کا تسلسل تھی۔ اُن کا فلسفہ خود شناسی اور عرفانِ ذات پر مبنی تھا۔ان کے بعد ڈاکٹر ریاض کشمیری نے اپنے مقالے میں دلائل دیتے ہو ئے کہا کہ علامہ اقبالؔ کے کلام کا پیام صرف اپنے عہد کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کا آئینہ دار نہیں بلکہ اکیسویں صدی کے عالمی منظرنامے پر بھی پوری طرح صادق آتا ہے۔ یہی اقبال کی بصیرت افروز فکر اور گہرے وژن کی دلیل ہے۔ مابعد جدید دور کی ثقافتی فضا اور مابعد جدید تنقید کے پس منظر میں جب اقبال کے کلام کو ردتشکیل کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تخلیقی طور پر نہ صرف عصر حاضر کے سیاسی، سماجی، تہذیبی اور معاشی بحرانوں کو سامنے لاتا ہے بلکہ آنے والے خطرات کی پیش گوئی بھی کرتا ہے۔
ڈاکٹر شیر علی نے تحقیقی گفتگو کرتے ہوئے سامعین پر آشکار کیا کہ اقبال کی فلسفیانہ فکر سیموئل ہنٹنگٹن کے ”تہذیبوں کے تصادم” کے نظریے سے کس طرح مختلف ہے۔اقبال نے ایک مختلف تصور پیش کیا جو تہذیبوں کے درمیان ناگزیر تصادم کے بجائے مکالمے اور باہمی احترام پر زور دیتا ہے۔ڈاکٹر یاسمین کوثر نے کہا کہ علامہ محمد اقبال اُردو ادب کے ایسے بے مثال شاعر، فلسفی اورمفکر ہیں جوماضی،حال اورمستقبل تینوں زمانوں کے شاعر ہیں۔علامہ نے وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا اور اس کے مطابق مسلمانوں کو تیار کیا۔ اقبال کی دوربین نگاہ میں وہ بصیرت تھی جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔فکر اقبال کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی اساس بھی قرآن وحدیث پر ہے۔ علامہ کے نزدیک جب تک مسلمان جدید علوم و فنون اور قرآن وسنت اورحدیث کا علم حاصل نہیں ہیں کریں گے، یہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ڈاکٹر شگفتہ فردوس نے اپنے مقالے میں مسئلہ جبر و قدر کی اقبال کے ہاں معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فطرت انسانی تعمیر وتنسیخ اور تسخیر سے آمیز ہے علامہ نے انسان کو عالم آزاد کا حامل اور عالم مجبور سے آگے نکلنے کا رستہ دکھایا تھا۔اکیسویں صدی میں جہاں نے ترقی کی نئی منازل طے کیں سائنس وٹیکنالوجی کی دنیا میں نئے ابواب روشن کیے اس کے اختیارات میں بے حد اضافہ ہوا اور اس نے تسخیر کائنات کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا شروع کیا ہے وہیں وہ اپنے من میں ڈوب نے اور سراغ زندگی پانے سے محروم بھی نظر آتا ہے۔اسے عالم آزاد اور عالم مجبور میں سے اپنے لیے متوازن راہ تلاش کرنا ہے مگر وہ آپ اپنے دام میں اسیر ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طارق مرزا نے کہاکہ جس دور میں اقبال نے آنکھ کھولی وہ مسلمانوں کے لیے ابتلائاور تکالیف کا دور تھا۔ دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی تھے غلامی کی زنجیر پہنے ہوئے تھے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کی پستی اور زوال کا سبب خودی کو بھولنا تھا۔ شاعرِ مشرق کے نزدیک خودی کا مطلب غرور تکبر کرنا نہیں نہ ہی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا خود ی ہے بلکہ خودی کامطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان سکے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جبکہ باقی ساری کائنات کو انسان کے لیے پیدا کیا۔ یہ انسان کا کام ہے کہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرکے تسخیرِ کائنات کا کردار ادا کرے۔ علامہ اقبال مسلمانوں سے فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ خودی اس کو استعمال کرنے کا نام ہے۔
ڈاکٹر عابد شیروانی نے کہا کہ اقبالؒ کی فکر امتِ مسلمہ کے زوال کے دور میں امید و بیداری کا مینار ہے۔ برصغیر کی مختلف تحریکوں اور مجددین کے بعد بیسویں صدی میں اقبالؒ ایک ہمہ گیر آواز بن کر ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ قوموں کی تقدیر بیداری، خودی، علم اور عمل سے سنورتی ہے:
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
ڈاکٹر تمنا شاہین نے اپنے مقالے میں کہا کہ اقبال کی تعلیمات نہ صرف زندگی کے مسائل اور چیلنجوں کا جرات مندانہ مقابلہ کرنے کا درس دیتی ہیں بلکہ دین کی حقیقی اور گہری سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے تقلید کی زنجیروں کو توڑ کر فکری آزادی، سائنسی تحقیق اور تخلیقی سوچ کی تلقین کی، جس کے ذریعے فرد کو موجودہ دور کے تعلیمی، سماجی اور اخلاقی امتحانات کا سامنا کرنے کے قابل بنایا۔