جزیرے کی رات ستاروں کے نیچے تنہائی کا لمس۔| تحریر: سیدہ ایف گیلانی
کنگرو آئی لینڈ قدرت کا حسین تحفہ:ایک سفر نامچہ۔ | تحریر: سیدہ ایف گیلانی
رات، جیسے کسی خاموش دعا کی صورت آہستہ آہستہ جزیرے پر اتر رہی تھی۔ دن بھر سمندر کی چمک، ہوا کی سرگوشیاں اور جنگل کی سرسبزی کے بعد یہ خاموشی کسی مراقبے کی مانند تھی۔ میں ساحل کے قریب ایک لکڑی کے بنچ پر بیٹھا تھا، جہاں لہروں کی سرگوشیاں ستاروں سے باتیں کرتی محسوس ہو رہی تھیں۔فضا میں ایک عجیب تقدس تھا — نہ شور، نہ جلدی، نہ وقت کا بوجھ۔ صرف سمندر، ہوا، اور میں۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا — بیشمار ستارے، جیسے کسی نے شب کے مخملی پردے پر نوری دانے بکھیر دیے ہوں۔ ان میں سے کچھ ایسے لگ رہے تھے جیسے راستہ بتا رہے ہوں، اور کچھ ایسے جیسے سوال کر رہے ہوں کہ انسان نے زمین پر اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے؟
دور کہیں کسی جانور کی مدھم آواز آئی، پھر خاموشی۔ یہ جزیرہ رات کے وقت زندہ محسوس ہوتا ہے، مگر اس کی زندگی شور میں نہیں — سکوت میں ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر پتہ، ہر شاخ، ہر ذرے میں کوئی کہانی بند ہے جو صرف رات کے دل جانتی ہے۔ میں نے اپنے جوتے اتارے، ریت پر قدم رکھا۔ ٹھنڈی نمی نے جیسے دل کے اندر اتر کر کوئی پرانی یاد جگا دی ہو۔ریت پر بیٹھے بیٹھے اچانک خیال آیا — شاید یہی لمحہ انسان اور فطرت کا سب سے سچا رشتہ ہے:جب دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ صرف محسوس کرتے ہیں۔میں نے اپنے قریب بہتی لہر کو دیکھا، جو بار بار آ کر میرے قدم چھو جاتی تھی۔ جیسے سمندر کہنا چاہتا ہو:”یہ جزیرہ میرا ہے، مگر اب تم بھی میرے ہو گئے ہو۔“
میں نے دل ہی دل میں جواب دیا
”ہاں، شاید۔ کیونکہ یہاں رات نے مجھے مجھ سے ملا دیا ہے۔“
جزیرے کے لوگ اور ان کی مسکراہٹیں
صبح کی ہوا میں سمندر کی نمکین خوشبو گھلی ہوئی تھی۔ میں جزیرے کے مرکزی قصبے کنگذکوٹ کی طرف جا رہی تھی۔ راستے کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے گھر، لکڑی کی باڑوں کے اندر کھڑے، جیسے فطرت کے رنگوں میں گھلے ہوئے ہوں۔ یہاں کے لوگ اپنے گھروں کے باہر پودے لگاتے ہیں، اور ہر دروازے پر ایک مخصوص خوشبو بکھری رہتی ہے — شاید یہ ان کی روزمرہ عبادت ہے، فطرت کے نام ایک خاموش سلام۔
تاریخ، فطرت اور تنہائی کا سنگم
کنگرو آئی لینڈ محض ایک قدرتی مقام نہیں بلکہ تاریخ اور انسان کے باہمی تعلق کا مظہر ہے۔ قدیم روشنی
بھی صرف اسی جزیرے میں محفوظ ہے، جو دنیا بھر میں اپنی خالص شہد کے لیے مشہور ہے۔
شام ڈھلنے لگی تو جزیرے کی فضا میں ایک روحانی سا سکون پھیل گیا۔ ساحل پر بیٹھے ہم لہروں کی سرگوشیاں سنتے رہے، جیسے سمندر اپنی صدیوں پرانی داستانیں سنارہا ہو۔
جزیرے کی حیاتِ حیوانات— فطرت کی سانسیں
اگلی صبح ناشتہ کیا اور ایک بار پھر سے جزیرے کے دوسرے حصوں کو دیکھنے کے لیے نکل پڑے۔کنگز کوٹ سے سیل بے کا فاصلہ کوئی ساٹھ کلو میٹر ہے چناچہ کچھ ہی دیر میں ہم سیل بے پہنچ گئے ،
آئی لینڈ کا وہ ساحل جہاں زمین اور سمندر ایک دوسرے سے بغل گیر نظر آتے ہیں، اور جہاں انسان نہیں، بلکہ آسٹریلین سی لائنز کے خاندان بستے ہیں۔
کنگرو آئی لینڈ کی سب سے نمایاں پہچان اس کی متنوع حیاتِ وحش یا حیوانات ہے۔ یہاں کا ہر گوشہ زندگی سے لبریز ہے — کہیں سبز چراگاہوں میں کنگروز اچھلتے دکھائی دیتے ہیں، کہیں درختوں کی شاخوں پر کوآلا سکون سے سو رہے ہوتے ہیں، اور کہیں چٹانوں پر سمندری شیر دھوپ سینکتے ہیں۔
جب ہم پہنچے تو دور سے سمندر کے شور کے ساتھ شیرِ بحری کی آوازیں سنائی دینے لگیں ساحل کے کنارے بنا لکڑی کا واک وے ہمیں ریتلے ٹیلوں کے بیچ سے گزارتا ہوا نیچے سمندر کے قریب لے گیا۔ نیلے آسمان کے نیچے سنہری ریت پر درجنوں سی لائنز دھوپ میں نیم دراز تھے۔ کچھ سورج کی تپش میں سستائے ہوئے خوابیدہ سے لگ رہے تھے اور کچھ اپنی ماؤں کے قریب کھیلتی چھوٹی چھوٹی”پپّیز“اپنی معصوم حرکتوں سے دل موہ رہی تھیں، اور کچھ نر سی لائنز اپنی حدود کے تحفظ میں بلند آواز سے للکار رہے تھے۔وہ منظر کچھ ایسا تھا جیسے قدرت نے اپنے سب رنگ ایک ہی فریم میں سمو دیے ہوں — نیلا آسمان، نیلا سمندر، سنہری ریت اور چاندی جیسی چمک لیے ہوئے سی لائنز۔اور اس پر طرہ یہ کہ لہروں کی آواز گویا کسی ازلی موسیقی کی طرح فضا میں گھل رہی تھی۔گائیڈ ہمیں بتا رہا تھا کہ یہ وہی نایاب نسل ہے جو صرف جنوبی اور مغربی آسٹریلیا کے ساحلوں پر پائی جاتی ہے، اور جنہیں دنیا بھر میں خطرے سے دوچار نسل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی لیے سیل بے کو ایک کنزرویشن پارک کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے تاکہ یہ خوبصورت مخلوق اپنی بقا کی جنگ میں کامیاب رہے۔
میں نے ایک لمحے کو سوچا — شاید یہ وہی سکون ہے جس کی تلاش میں انسان فطرت کی طرف لوٹتا ہے۔ یہاں نہ شور ہے نہ جلدی، صرف خاموشی اور زندگی کی سادہ دھڑکن۔سی لائنز کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ قدرت اپنے دائرے میں کتنی منظم اور پُرسکون ہے، بس ہم ہی ہیں جو فطرت کی اس ہم آہنگی کو بھلا بیٹھے ہیں۔
جب ہم واپس لوٹے تو سورج مغرب کی سمت جھک رہا تھا، سمندر کی سطح پر سنہری روشنی ناچ رہی تھی، اور پیچھے ساحل پر آرام کرتے سی لائنز گویا ہمیں الوداع کہہ رہے تھے —یہ لمحہ ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہو گیا۔
ماحولیاتی شعور اور جزیرے کی حفاظت
کنگرو آئی لینڈ کے باسی اپنے ماحول سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ 2019ء کے تباہ کن جنگلاتی آتشزدگی کے بعد جب جزیرے کا بڑا حصہ راکھ ہو گیا تھا، تو مقامی افراد نے فطرت کو بحال کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ آج وہی درخت، جن کی راکھ سمندر میں جا گری تھی، دوبارہ سبز ہو چکے ہیں — گویا زندگی نے خود کو پھر سے جنم دیا ہو۔
جزیرے کے مختلف حصوں میں قدرتی پارک اور تحقیقی مراکز قائم ہیں جو ماحولیاتی توازن، نایاب نسلوں کی بقا، اور سیاحتی سرگرمیوں کے ذمہ دارانہ نظم پر کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ شعور ہے جو جدید دنیا کے انسان کو درکار ہے — ترقی کے ساتھ فطرت کا احترام۔
ثقافت، سادگی اور انسانی رشتہ
جزیرے کے چھوٹے قصبوں جیسے کنگزکاٹ
ایت سادہ مگر پُرمعنی ہے۔ چھوٹے کیفے، فنکاروں کی گیلریاں، اور ہاتھ سے بنی یادگاریں اس خطے کے ذوق اور محنت کی علامت ہیں۔ لوگ یہاں ایک دوسرے کو مسکرا کر سلام کرتے ہیں، اجنبی کو بھی اپنائیت سے خوش آمدید کہتے ہیں۔
ہم نے ایک مقامی ماہی گیر سے بات کی جو گزشتہ چالیس برس سے اسی ساحل پر اپنی کشتی چلاتا ہے۔ اُس نے کہا:”یہ جزیرہ ہمارے لیے صرف زمین نہیں، ہماری سانس ہے۔ جب سمندر پرسکون ہوتا ہے تو ہم بھی ہوتے ہیں، جب یہ بپھرتا ہے تو ہم کانپ اٹھتے ہیں۔“ اس موقع پر مجھے علامہ اقبال کا وہ خوبصورت شعر جو اس بات کی دلیل ہے کہ جس جگہ انسان بس جاتا ہے وہ اسے ہر شے سے عزیز ہوجاتی ہے
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
اور اسی ضمن میں ان کا یہ خیال کہ
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
واقعی، کنگرو آئی لینڈ میں فطرت کے ساتھ انسان کا رشتہ وہی روحانی ہم آہنگی ہے جسے علامہ اقبال نے انسانیت کی نجات قرار دیا۔ جب سورج سمندر کی گہرائیوں میں ڈوبنے لگا، تو آسمان پر نارنجی اور نیلے رنگوں کی آمیزش نے ایک غیر معمولی منظر تخلیق کیا۔ لہروں پر جھلملاتا سورج جیسے الوداع کہتا ہوا روشنی کی نازک لکیریں چھوڑ گیا۔
فیری کے ڈیک پر کھڑی میں سمندر کو دیکھ رہی تھی — وہی نیلا، گہرا، پُرراز سمندر جو جاتے ہوئے جیسے الوداع نہیں بلکہ کوئی راز سونپ رہا ہو۔ ہوا میں ہلکی خنکی تھی، اور لہر در لہر وہی خاموش موسیقی جو جزیرے کی روح میں بستی ہے۔واپسی ہمیشہ عجیب لمحہ ہوتا ہے۔ انسان کسی جگہ سے نہیں، دراصل خود کے ایک حصے سے جدا ہوتا ہے۔
میں جزیرے سے کچھ یادیں لے جا رہی تھی۔ کوآلا کی معصوم نیند، مچھیرے کی باتیں، ستاروں بھری رات، اور وہ لمحہ جب ریت پر بیٹھے سمندر کو چھوتے ہوئے لگا تھا کہ فطرت نے مجھے اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔
اور ہم ایک بار پھر فیری پر سوار ہو گئے۔ جیسے ہی فیری پینے شا سے چلی،اسی لمحے محسوس ہوا کہ جزیرہ دراصل کوئی مقام نہیں — یہ ایک کیفیت ہے، ایک تجربہ ہے، جو انسان کے اندر کی خاموشی کو بیدار کرتا ہے۔فیری آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ میں نے مڑ کر آخری بار جزیرے کی سمت دیکھا۔دور کہیں سبز پہاڑ، سنہری ساحل، اور درختوں کے سائے — سب ایک خواب کی طرح مدھم ہوتے جا رہے تھے۔ مگر اس خواب کی خوشبو دل کے اندر گہرائی تک بس چکی تھی۔
میں نے خود سے کہا
”یہ جزیرہ صرف ایک جگہ نہیں، ایک کیفیت ہے — جو انسان کو اس کی اصل سے ملا دیتی ہے۔“
زمینِ جنوبی آسٹریلیا قریب آ رہی تھی، مگر دل اب بھی اسی جزیرے پر اٹکا تھا۔
وہاں کی خاموشی میں جو صدائیں تھیں، وہ میرے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ شاید یہی کسی اچھے سفر کی سب سے بڑی کامیابی ہے، کہ انسان واپس تو آ جائے، مگر اندر کہیں وہیں رہ جائے۔ پھر تھوڑی دیر ہم واپس کیپ جاروس پر لنگر انداز ہو گئے۔ اپنی گاڑی لی اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور فلیگ اسٹاف ہل کا راستہ ایک بار پھرہمارے سامنے آیا، مگر اب منظر کچھ اور تھا۔
دو نیلگوں وسعتوں کے بیچ
سمندر اور آسمان کے درمیان
ایک خواب بستا ہے
جسے جنوبی ہوائیں آہستہ سے گنگناتی ہیں
یہ جزیرہ
وقت کے نرم ہاتھوں سے تراشا گیا
جہاں خاموشی بولتی ہے
اور فطرت، دعا کی صورت بہتی ہے
سحر کے وقت
چٹانیں عنبر رنگ ہو جاتی ہیں
اور سمندری شیروں کی آنکھوں میں
نیند کا آخری خواب ٹوٹتا ہے
موجیں اپنی ازلی نظم دہراتی ہیں
اور پرندے ریت پر
لفظوں کی طرح اترتے ہیں
سرسبز درختوں کے سایوں میں
ایک والبی ٹھہر کر دیکھتا ہے
جیسے وقت رک گیا ہو
یُوکلپٹس کی خوشبو
ہوا میں دعا بن جاتی ہے
اور کوالا نیم خوابیدہ
دنیا سے بے نیاز
فلنڈرز چیس کی وسعت میں
ہوا، کہانیوں کی ترجمان بن جاتی ہے
چٹانوں پر نقش ہیں
صدیوں کے گزرنے کی گواہیاں
روشنی کے مینار
سمندر کی دعا میں کھڑے ہیں
کَیپ ولیوبی کا چراغ
اب بھی آسمان کو اشارے دیتا ہے
سیل بے کے کنارے
مدّ و جزر کے نغمے
زندگی کی آیات سناتے ہیں
کوئی عبادت گاہ نہیں
پر ہر سانس میں
خالق کی موجودگی محسوس ہوتی ہے
جب شام کا رنگ بنفشی ہو جائے
اور سورج سمندر میں اتر جائے
تو کینگرو آئی لینڈ
ایک مکمل نظم بن جاتا ہے
جادوئی بھی
اور حسین بھی