چین کی قابل تجدید توانائی تعاون کے فروغ کی کوششیں۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی (آئی آر ای این اے) 169 اراکین کے ساتھ  ایک معروف عالمی بین الحکومتی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر توانائی کی قابل تجدید منتقلی کو فروغ دیتی ہے، توانائی کی منتقلی میں ممالک کی مدد کرتی ہے، اور گرین ٹیک جدت طرازی، پالیسی، مالیات اور سرمایہ کاری پر تازہ ترین اعداد و شمار اور تجزیے فراہم کرتی ہے.ابھی حال ہی میں تنظیم کی جانب سے ورلڈ گورنمنٹ سمٹ کے موقع پر بتایا گیا کہ چین قابل تجدید توانائی کی جانب دنیا کی منصفانہ منتقلی میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اورچین نے ہمیشہ قابل تجدید توانائی کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔تنظیم کی جانب سے چین کو نئے قمری سال کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا گیا کہ “ڈریگن کا سال ہمت، توانائی اور پُر عزئم جذبے کی عکاسی کرتا ہے. ہم سب کو اپنے مشترکہ مستقبل اور سیارے کے مستقبل کا خیال رکھنے کے لئے پرعزم ہونے کی ضرورت ہے۔

عالمی تنظیم کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ مینوفیکچرنگ کے مرکز کے طور پر چین کا کردار انتہائی نمایاں ہے کیونکہ چین ماحول دوست منتقلی کی لاگت کو مسلسل کم کر رہا ہے ،اس سے بڑی تعداد میں ممالک چین سے سیکھتے ہوئے اپنے قومی منصوبوں کو زیادہ آسانی سے آگے بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں۔تنظیم کی جانب سے  گزشتہ سال مارچ میں شائع ہونے والے قابل تجدید صلاحیت کے اعداد و شمار  کے مطابق ، چین کا 2022 میں عالمی سطح پر مجموعی قابل تجدید صلاحیت میں شیئر تقریباً 48 فیصد رہا ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ مجموعی عالمی پیمانے کے لحاظ سے نئی پن بجلی کی صلاحیت کا دو تہائی، نئی شمسی صلاحیت کا 45 فیصد، ہوا کی نئی صلاحیت کا نصف، اور 2022 میں نئی بائیو انرجی صلاحیت کا 57 فیصد چین میں نصب کیا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ دنیا کے نزدیک چین جو بھی مثبت اور تعمیری قدم اٹھاتا ہے اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوتے ہیں اور دنیا بھی چین کے کردار کو سراہتے ہوئے قابل تقلید قرار دیتی ہے۔ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ چین  اس ضمن میں ہمیشہ عالمی تعاون کو بھی فروغ دینے کی محرک قوت بن کر ابھرا ہے ۔

ماہرین کے نزدیک قابل تجدید توانائی کے شعبے میں دنیا کے سامنے تین اہم چیلنجز ہیں۔اول ، دنیا کے زیادہ تر ممالک کے پاس اب بھی مرکزی بجلی گھروں سے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی حمایت کرنے کے لئے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔دوسرا ، قابل تجدید توانائی ایک ایسا شعبہ ہے جو پالیسی پر مبنی ہے۔لہذا نہ صرف پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے بلکہ عملی اقدامات سے انہیں ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔تیسرا، توانائی کی ماحول دوست منتقلی کی حمایت کرنے کے لئے مزید افرادی قوت اور مہارت کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کے خیال میں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک منصفانہ توانائی کی منتقلی ہو کیونکہ دنیا کے کچھ حصوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا بصورت دیگر پائیدار نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔اس ضمن میں چین ، بہت سے ترقی پذیر ممالک کو توانائی کے نئے نظام میں اصلاحات اور اثاثے بنانے میں مدد فراہم کررہا ہے، جو واقعی لائق تحسین ہے۔ اگر چین کا یہ کردار مسلسل جاری رہتا ہے اور باقی دنیا بھی چین کی پیروی کرتے ہوئے اس تعاون کو مزید فروغ دیتی ہے تو، یقیناً شفاف توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی محض کاغذی بات نہیں رہے گی بلکہ ایک حقیقت کا روپ دھار لے گی۔

SAK

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link