موسمیاتی تبدیلیوں کا بحران اور ہمارا شہر۔| تحریر : عرشی عباس
بات اگر موسمیاتی تبدیلیوں کی ہو تو اس وقت پوری دنیا اس بحران کا شکار ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سرحدوں کو نہیں مانتی۔کہیں سونامی تباہی مچا رہا ہے، کہیں تیز دھوپ اور گرمی سے ہیٹ ویو سے لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، تو کبھی اچانک بارشوں سے سیلابی آفات لوگوں کو گھروں سے دربدر کر رہی ہیں۔لیکن یہ سب اچانک نہیں ہوا، یہ ایک ایسا خاموش طوفان ہے جو ایک طویل عرصے سے ہماری جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا اور ہم اس کے نشانے پر تھے اور اب بھی ہیں۔ بہت سیترقی یافتہ ممالک نیاس حوالے سے ممکنہ کوششیں کر کے کسی حد تک ان تبدیلیوں سے ہونے والی تباہیوں اور نقصانات کی بھرپائی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دوسری طرف ہم جیسے ممالک جو ترقی کی جانب بڑھ تو رہے ہیں لیکن ان تبدیلیوں سے نظریں چرائے بیٹھیں ۔
موسمیاتی تبدیلیاں کئی طرح سے ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن اصل کہانی شروع ہوتی ہیدنیا کے سب سے بڑے اور سب سے پرانے برفانی تودے اے 23 اے سے جس کا سفر اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔ یہ وہی عظیم برفانی تودہ ہے جو کچھ ذرائع کے مظابق کراچی سے بھی بڑا تھا اور جس نے تقریباً چالیس سال تک دنیا کے سب سے بڑے منجمد ذخیرے کی حیثیت قائم رکھی۔ یہ تودہ سن 1986 میں انٹارکٹیکا کے ساحلی علاقے سے الگ ہوا اور بحیرہ ودل (ویڈل سی) کی تہہ میں رک گیا تھا جہاں اس نے ایک برفانی جزیرے کی شکل اختیار کرلی۔ اس کا رقبہ لگ بھگ تقریبا 1500 مربع میل اور وزن ایک ہزار ارب ٹن تھا۔جس کی وجہ سے اسے رقبے کے اعتبار سے کراچی (1360 مربع میل) سے بھی بڑا کہا گیا۔ کئ دہائیوں تک یہ ایک ہی جگہ جما رہا اور ماہرین کے لیے حیرت انگیز معمہ بن گیا کہ اتنا بڑا برفانی ٹکڑا بغیر حرکت کے اتنی طویل مدت تک کیسے قائم رہ سکتا ہے۔
سن 2020 میں یہ پہلی بار اپنی جگہ سے ہلا اور آہستہ آہستہ شمال کی جانب بہتے ہوئے ساوتھ اورکنے آئسلینڈ تک پہنچا۔ پھر کچھ عرصے کے لیے یہ وہیں رکا رہا اور کئی مہینوں تک ایک ہی جگہ پر سست روی سے گھومتا رہا۔ دسمبر 2024 میں اس نے دوبارہ حرکت شروع کی اور مارچ 2025 میں یہ جنوبی بحرِ اوقیانوس میں واقع ساوتھ جیورجیا نامی جزیرے کے قریب جا کر رک گیا۔
اس مقام پر کئی سالوں تک سائنسدانوں کو یہ خدشات لاحق ہوئے کہ یہ برفانی دیوار مقامی سمندری حیات کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے،لاکھوں پینگوئنز اور سیلز اپنی خوراک کے لیے روزانہ سمندر کا رخ کرتے ہیں، اور اتنے بڑے تودے کا راستے میں حائل ہونا ان کی بقا کو خطرے میں ڈال سکتا تھا۔ مگر قدرت کا نظام کچھ اور تھا، یہ تودہ مئی 2025 میں اس جگہ سے آگے بڑھتے ہوئے گرم پانیوں میں داخل ہوگیا اور آہستہ آہستہ پگھلنے لگا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اس کا حجم پچاس فیصد سے بھی کم ہو چکا ہے اور صرف 683 مربع میل پر محیط رہ گیا ہے۔ اس سے کئی بڑے بڑے برفانی ٹکڑے الگ ہوئے جن میں سے بعض کا سائز 400 مربع کلومیٹر تک ہے۔ یہ ٹکڑے اب آزادانہ طور پر سمندر میں بڑھ رہے ہیں جو کہ بحری جہازوں کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
برٹش انٹارکٹک سروے کے اوشین گرافر اینڈریو مائیجرز کے مطابق یہ تودہ اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ“یہ شمال کی طرف بہتے ہوئے ڈرامائی انداز سے ٹوٹ رہا ہے۔ یہاں پانی اتنا گرم ہے کہ یہ مزید قائم نہیں رہ سکتا اور مسلسل پگھل رہا ہے۔ میری رائے میں یہ اگلے چند ہفتوں تک بہتا رہے گا مگر اس کے بعد قابلِ شناخت نہیں رہے گا۔
لیکن اس تودے کی پگھلاوٹ محض ایک دلچسپ مظہر نہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کا براہِ راست ثبوت ہے۔ زمین کے اوسط درجہ حرارت میں معمولی اضافہ برفانی خطوں پر بھی گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ انٹارکٹیکا اور بحرِ جنوبی کے پانی مسلسل گرم ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اے 23 اے جیسے بڑے برفانی دیو بھی اب زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ پا ئینگے۔
اس کے پگھلنے کے نتائج دو سطحوں پر نمایاں ہوں گے۔
پہلا یہ کہ اس سے اربوں ٹن تازہ پانی سمندر میں شامل ہو رہا ہے جو سمندری نظام اور درجہ حرارت کو متاثر کرے گا، جو کہ نہ صرف سمندری جاندار بلکہ دنیا بھر کے موسم بھی بدل سکتے ہیں۔
دوسرا اور زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اگر مستقبل میں اس جیسے بڑے تودے بڑی تعداد میں ٹوٹنے لگے تو سمندر کی سطح بلند ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں دنیا کے ساحلی شہر جیسے کراچی، ڈھاکہ، نیویارک اور میامی شدید خطرے کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
یہ برفانی تودہ حقیقت میں ایک قدرتی الارم ہے جو ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر ہم نے ماحول دشمن سرگرمیوں اور کاربن کے بے تحاشہ اخراج کو کنٹرول نہ کیا تو آنے والے برسوں میں ہماری زمین پر بڑے پیمانے پر تباہی آسکتی ہے۔ گلوبل وارمنگ محض ایک سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے مستقبل کو گھیر رہی ہے۔کراچی میں ہونے والی مون سون بارشیں بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ اب آتے ہیں ہم ایک بات کی جانب کہ یہ گلوبل وارمنگ کس طرح ہم پر اثر انداز ہو رہی ہے،ہم ایک سیارے کے باسی ہیں مگر آج ہمارا یہ سیارہ شدید بحران کی لپیٹ میں ہے،کہیں زمین تپتی گرمی سے جل رہی ہے تو کہیں سیلاب جیتی جاگتی زندگیوں کو بہا لے جا رہا ہیاور کہیں خشک سالی انسان کو اس کی بنیادی ضرورت ‘پانی’سے محروم کردیتی ہے۔
آب ہوا کی یہ آفات کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں سیلاب، بارش اور شدید گرمی نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں مکمل طور پر بدل کر رکھ دی ہیں۔ایک طرف تو فصلیں تباہ،پانی آلودہ،بیماریاں عام تو دوسری طرف معیشت کو خطرہ اور جھٹکا لگ رہ ہے۔لیکن یہ صرف ہم ترقی پذیر ممالک کے حالات نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی ان بحرانوں سے محفوظ نہیں ہیں۔کیلیفورنیا میں اچانک بھڑک اٹھنے والی جنگلات کی آگ اور یورپ میں شدید ہیٹ ویو اس بات کا ثبوت ہیں کی موسمیاتی بحران جب وار کرتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ وہ ترقی پذیر ہے یا ترقی یافتہ۔
کراچی کی سڑکوں پر بارش کا پانی دریا کی طرح بہتا ہے، گھروں میں داخل ہوتا ہے اور زندگیاں اجاڑ دیتا ہے، 2020 میں اگست میں انتہا کی بارشیں آئیں، 27 اگست کی ایک دن میں ریکارڈ بارش223.5 تھی۔اور پورے شہر کے لئے مجموعی طور480 ملی میٹر پر سال کایہ مون سون بہت زیادہ تھا۔2021 میں محکمہ پی ایم ڈی کی رپورٹ کے مطابق مون سون نسبتا کم رہا یعنی120 سے 160 ملی میٹر، 2022 میں بھی کراچی میں مون سون کی بارشوں نے ایک بار پھر نظام زندگی پر اثر ڈالا،محکمہ موسمیات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یہ کراچی کی سب سے زیادہ ریکارڈ بارش تھی550 سے 600 ملی میٹر۔2023 اور 2024 میں پی ایم ڈی نے مون سون کو اوسط یا اوسط سے تھوڑا اوپر بتایا، 2025 میں کراچی میں 19 اور20 اگست کیقریب شدید بارشیں ہوئیں،جس کی وجہ سے شہر کی آبادی اور ڈریںنیج سسٹم بری طرح متاثر ہوئے، کچھ علاقوں میں160 سے 170ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئ جو کہ گزشتہ سالوں سے بہت زیادہ تھی۔اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات، اورزخمی ہونے والے افراد اور جانی نقصان کی تعداد بھی زیادہ تھی،مختلف حادثات جیسیدیواریں گرنا،بجلی کے جھٹکے،اور ڈوبنے کے نتیجے میں اگست 2025 میں تقریبا 17 افراد ہلاک ہوئے۔ بارشوں کے بعد ہونے والے نقصانات کی فہرست بھی لمبی ہے، شہر کراچی میں ایک طرف توڈرینیج سسٹم ناقص اور دوسری طرف غیر قانونی قبضہ مافیا کی وجہ سے نالوں کے قریب بنی بستیاں ہیں جو ان نالوں کے اوور فلو کی وجہ سے عتاب میں آجاتی ہیں۔ ان تمام مشکلات کے بعد دیکھا جائے تو سب سے زیادہ اثر کراچی کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت پر بھی پڑتا ہے، جس سے ابھرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔
اے۔23 اے کا سفر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ قدرت کے بڑے بڑے قلعے بھی اگر انسان کی کوتاہیوں کے سامنے ٹک نہ سکیں تو ہماری بستیاں اور شہر کیسے محفوظ رہ سکیں گے؟ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہم نے ابھی سے اپنی روش نہ بدلی تو کل کے نقشے سے محض ایک برفانی تودہ نہیں بلکہ پوری کی پوری انسانی آبادی غائب ہوسکتی ہے۔
