کنگرو آئی لینڈ قدرت کا حسین تحفہ:ایک سفر نامچہ۔ | تحریر: سیدہ ایف گیلانی
یہ جزیرہ خواب کی تعبیر لگتا ہے مجھے
روشنی، خوشبو، دعا، تفسیر لگتا ہے مجھے
ریت پر موجوں نے لکھے وقت کے افسانے سارے
ہر لہر میں عمر کی تحریر لگتا ہے مجھے
چاند اترے تو سمندر میں اجالا بولتاہے
ہر کرن میں حرفِ تسخیر لگتا ہے مجھے
فلنڈرز کی چٹانوں پر کھڑا وہ وقت ہے
جو ازل سے منتظرِ تعبیر لگتا ہے مجھے
شام آئے تو فضا سجدے میں ڈھل جاتی ہے
کینگرو آئی لینڈ تقدیر لگتا ہے مجھے
برِ اعظم آسٹریلیا میں یوں تو بہت سے چھو ٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ ان میں سے کنگرو آئی لینڈ تیسرا بڑا جزیرہ ہے جوجنوبی آسٹریلیا میں واقع ہے۔ یہ جزیرہ ریاست جنوبی آسٹریلیا کے دارالحکومت ایڈیلیڈ سے تقریباً ایک سو بیس کلو میٹرجنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس جزیرے کو دیکھنے کی ایک مدت سے خواہش تھی لیکن آج اسے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
جب ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو سورج کی تمکنت ہر سو پھیل چکی تھی۔ ایسے میں ہماری گاڑی کیپ جاروس کی طرف روانہ ہوئی تو راستے میں کرسٹیز ڈاؤن، اولڈ نورلنگا، سی فورڈ رائز، الڈنگا بیچ، مے پونگا، ینکالیلا، نارمن ول، سیکنڈ ویلی، سے گزرتے ہوئے کپ جاروس کے ساحل پر پہنچے۔ راستے میں آنے والے چھوٹے چھوٹے قصبے اپنی مخصوص آسٹریلوی سادگی کے ساتھ دل موہ لینے والے تھے۔ ہر بستی میں چھوٹے کیفے، مقامی فنکاروں کی دکانیں، اور ساحلی خوشبو سے لبریز ہوا گویا یہ سب مسافروں کو دعوتِ سفر دے رہے ہوں۔
فیری کا سفر — سمندر کی آغوش میں
کیپ جاروس پہنچ کر ہم نے اپنی گاڑی سی لنک فیری پر سوار کی جس کی ٹکٹ ہم پہلے ہی خرید چکے تھے۔ چند ہی لمحوں بعد فیری کے انجن کی گڑگڑاہٹ سمندر کی وسعتوں میں تحلیل ہو گئی۔ نیلا آسمان، جھاگ اڑاتی لہریں، اور دور کہیں چمکتا ہوا جزیرہ — منظر ایسا تھا کہ وقت ٹھہر سا گیا۔ ڈیک پر کھڑے ہم نے جب پس منظر میں ساحلِ جنوبی آسٹریلیا کو دھیرے دھیرے دور ہوتے دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے ہم کسی نئے جہان کی طرف بڑھ رہے ہوں۔
فیری کے عملے نے بتایا کہ یہ سفر تقریباً چالیس منٹ کا ہے، اور اکثر اوقات یہاں ڈولفنیں فیری کے ساتھ ساتھ تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ واقعی، کچھ دیر بعد چند چمکتی ہوئی ڈولفنیں لہروں کے بیچ اٹکھیلیاں کرتی دکھائی دیں — سمندر کی سطح پر زندگی کا ایک دلکش رقص (یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جب سمندر میں اونچی لہریں اٹھنا شروع ہو جائیں تو یہ فیری سروس بند کر دی جاتی ہے)۔
کنگرو آئی لینڈ — فطرت کا زندہ عجوبہ
فیری جیسے ہی پینے شا کے ساحل سے لگی ہوا میں سمندری نمک کی خوشبو اور نرمی گھل گئی ۔ سامنے پہاڑی ڈھلوانیں ، درختوں سے بھری وادیاں، اور کبھی کبھار سڑک کے کنارے چھلانگ لگاتے کنگروز — یہ سب مناظر ایسے تھے جیسے کسی مصور نے رنگوں کی جادوگری سے ایک زندہ تصویر تخلیق کر دی ہو۔مجھے لگا جیسے یہ جزیرہ زمین پر نہیں، کسی اور کائنات کا حصہ ہے — جہاں فطرت، انسان سے نہیں ڈرتی بلکہ اسے اپنا ہمراز سمجھتی ہے۔
صبح کی پہلی کرن جیسے جزیرے کی آنکھوں میں اتر رہی تھی۔ ہوا میں خنکی تھی مگر دھوپ نرم، جیسے کسی ماں کا لمس۔ میں نے ساحل کے قریب بنے لکڑی کے کیبن سے باہر قدم رکھا تو سامنے دور تک سبزہ پھیلا تھا — اور وہ سبزہ محض رنگ نہیں، زندگی کی دھڑکن محسوس ہوتا تھا۔
جنگل کی طرف جانے والا راستہ باریک پتھروں سے بھرا تھا۔ چلتے ہوئے پاؤں میں وہی خراش محسوس ہوتی جو مسافر کو یاد دلاتی ہے کہ سفر آسان نہیں ہوتا، مگر ہر خراش میں ایک نیا منظر چھپا ہے۔ درختوں کے بیچ سے گزرتی ہوا کے ساتھ پرندوں کی آوازیں مل کر ایک ایسا ترانہ بنا رہی تھیں جو نہ کسی انسان نے لکھا، نہ کبھی بجاتا۔
کنگرو آئی لینڈ کی سڑکیں زیادہ تر خاموش، ہموار اور فطرت کے قریب ہیں۔ کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ میں کوآلاالٹا لٹکا ہوا نظر آتا، اور پرندوں کی چہچہاہٹ پورے جزیرے میں ایک موسیقی سی بکھیر دیتی۔
راستے میں ایک مقامی گائیڈ ملا، نام تھا جارج۔ وہ ہنس کر بولا
”یہاں کے درخت ہماری طرح عمر رسیدہ ہیں، اور بعض شاید ہم سے زیادہ دانا۔“
میں نے جواب دیا،”اور شاید ہم سے زیادہ خاموش بھی۔“
وہ مسکرایا — جیسے اس بات کو قبول کر چکا ہو کہ انسان شور مچانے والی مخلوق ہے اور فطرت اس کا صبر آزما ہمسفر۔
کچھ دور ہم نے ایک جگہ دیکھی جہاں کوآلا درختوں کی شاخوں سے لپٹے سو رہے تھے۔ ان کے چہرے پر عجب سکون تھا، جیسے وقت ان کے لئے رک چکا ہو۔ میں نے سوچا — انسان نے ترقی کے نام پر نیند کھو دی، اور یہ ننھی مخلوق دنیا کی سب سے بڑی دولت، یعنی سکون، کی مالک ہے۔
جزیرے کے شمال میں فِلنڈرز چیز نیشنل پارک جیسے قدرتی عجائبات ہیں اور جنوب مغرب میں ریمارکیبل چٹان ساختیں جنہیں دیکھ کرلگتا ہے کہ فطرت خود ایک مجسمہ ساز ہے۔
دن بھر کی سیاحت کے بعد ہم اپنے ہوٹل پہنچے تو سورج دور سمندر کی تہہ میں ڈوب رہا تھا یہ منظر بھی ناقابلِ فراموش تھا جسے ہماری آنکھوں نے دل و دماغ کی گہرائی میں ہمیشہ ہمیشہ کے محفوظ کر لیا گویا
جب جھکایا سر توآیئنہ بنا دل کا جہاں
خود ہی دیکھا، خود ہی پایا، فاصلہ کوئی نہ تھا
فطرت نے بخشی بصیرت، عقل کو حیرت ملی
تھا تو قطرہ بحرِ حق میں جا کر گوہر بن گیا
کنگزکوٹ کے کیفے میں داخل ہوئے تو ایک مقامی عورت نے خوشی سے کہا،
“گُڈ مارننگ، لوولی ڈے از اِنِٹ اِٹ؟”
میں نے مسکرا کر جواب دیا،”ہاں، واقعی، آج کا دن خوبصورت ہے — شاید جزیرے کی روح اسی روشنی میں جاگتی ہے“
وہ ہنسی، جیسے یہ بات کسی راز کو چھو گئی ہو۔
یہاں کے لوگ وقت کے بوجھ سے آزاد ہیں۔ وہ گھڑی نہیں دیکھتے، بلکہ آسمان کے رنگوں سے دن اور شام کا اندازہ لگاتے ہیں۔ کوئی جلدی میں نہیں، کوئی شور نہیں۔
دکان دار، کسان، ماہی گیر — سب کے چہروں پر ایک خاص سکون ہے، جیسے زندگی سے سمجھوتہ نہیں بلکہ دوستی کر رکھی ہو۔
ایک بوڑھے مچھیرے سے ملاقات ہوئی۔ وہ بندرگاہ کے قریب جال سمیٹ رہا تھا۔
میں نے پوچھا،“کتنے عرصے سے یہاں ہو؟”
وہ بولا،“پچاس سال سے زیادہ۔”
میں نے کہا،“اتنے برس ایک ہی سمندر کے ساتھ؟”
وہ مسکرایا،“یہ سمندر دوست ہے، دشمن نہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ تم اس کی زبان سمجھ لو۔”
اس کے الفاظ سمندر کے لہروں کی مانند میرے دل میں گونجتے رہے۔
واقعی، یہاں کے لوگ سمندر سے، ہوا سے، درختوں سے بات کرتے ہیں۔
ان کی مسکراہٹیں مصنوعی نہیں — بلکہ فطرت کی سادگی کا عکس ہیں۔
مقامی لوگوں کی گفتگو سے مجھے یہ احساس ہوا — یہ جزیرہ صرف مناظر کا نہیں، انسانیت کا جزیرہ بھی ہے۔اس احساس نے مجھے تاریخ اوراق میں گم کر دیا۔ تاریخی حقائق جو مجھے میسر آسکے انہیں اختصار سے یہاں بیا ن کیا جارہا ہے تاکہ میرے قارئین کوفطرت کے اس شہکار کی زیادہ سے زیادہ معلومات مل سکیں اور وہ بھی میری طرح ایک دن اس جزیرے کو دیکھنے کے خواہاں ہوں۔۔۔۔۔۔۔
کنگرو آئی لینڈ تاریخ کے آئینے میں
یورپین تاریخ دانوں کے مطابق ”کینگرو آئی لینڈ کی پرکشش وراثت اور تاریخ استقامت، جدوجہد اور حوصلے کی ایک داستان ہے۔ جزیرے کی ابتدا تقریباً 10,000 سال پہلے ہوئی، جب بڑھتے ہوئے سمندری پانی نے اسے براعظم آسٹریلیا سے جدا کر دیا۔ برّی آسٹریلوی قبائل اس جزیرے کو”کارٹا“یا”مردوں کا جزیرہ“کہا کرتے تھے۔ ایک چھوٹا سا قبیلہ یہاں تقریباً 2,000 سال پہلے تک آباد تھا، مگر ان کے اچانک غائب ہو جانے کی وجہ آج بھی ایک معمہ ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز پر پہلے یورپی مہم جو یہاں پہنچے۔
کپتان میتھیو فلنڈرز کو برطانوی حکومت نے جہاز ایچ ایم ایس انویسٹیگیٹر
پر سوار ہو کر جنوبی ساحل کے نقشے تیار کرنے اور اس کا جائزہ لینے کی مہم پر روانہ کیا۔ مارچ 1802ء میں فلنڈرز اور ان کے عملے نے ایک بڑے جزیرے کی دریافت کی۔ یہاں انہیں کینگرو زکے جھنڈ ملے جنہیں وہ تازہ گوشت کے لیے شکار کرنے لگے کیونکہ وہ کئی ماہ سے تازہ خوراک سے محروم تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس زمین کا نام”کینگرو آئی لینڈ“رکھا۔فلنڈرز کینگرو کا گوشت، سیل اور لکڑی لے کر واپس مین لینڈ پہنچے اور انہوں نے اپنی ڈائری میں اس چٹان کا بھی ذکر کیا جہاں سے تازہ پانی پھوٹ رہا تھا۔
چند ماہ بعد فرانسیسی مہم جو کمانڈر نکولس بوڈین اپنے جہاز لی جیوگرا
پر جنوبی آسٹریلیا کے اینکاؤنٹر بے پہنچے۔ یہاں بوڈین کی ملاقات فلنڈرز سے ہوئی، جس نے جزیرے کے متعلق معلومات ان کے ساتھ شیئر کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ملک اس وقت جنگ میں تھے، مگر دونوں مہم جوؤں کے تعلقات خوشگوار رہے۔
جنوری 1803ء میں بوڈین نے تین ہفتوں میں پورے جزیرے کا نقشہ تیار کیا اور اس کے جنوبی و مغربی ساحلوں کو فرانسیسی نام دیے؛ جیسے کیپ دو کویڈک ، ویوون بے اور ڈی ایسٹریز بےبوڈین نے جانوروں اور پودوں کے نمونے جمع کیے جن میں کینگرو اور ای میوز شامل تھے۔ کچھ نمونے فرانس تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ فرانس واپس جانے سے قبل انہوں نے یہاں جنگلی خنزیر اور مرغیاں چھوڑ دیں تاکہ آئندہ آنے والے مہم جو ان سے خوراک حاصل کر سکیں۔ ان خنزیروں کی نسل آج بھی جزیرے پر موجود ہے اور اسے”بوڈین پگ“کہا جاتا ہے۔
کینگرو آئی لینڈ کے ابتدائی آبادکاروں کی آمد
جزیرے کے ساحلی پانیوں کی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکی وہیلنگ اور سیلنگ جہاز یہاں پہنچے۔ 1802ء سے 1836ء تک بعض سیلرز اور فرار شدہ قیدیوں نے یہاں بسیرا کیا۔ ان سیلرز نے تسمانیہ اور جنوبی آسٹریلیا سے کئی آیبوریجنل عورتوں کو اغوا کیااور انہیں قیدی، بیویوں اور غلاموں کے طور پر رکھا۔انہی سیلرز نے جنوبی آسٹریلیا کی پہلی کشتی“انڈیپنڈنس”بھی یہیں تیار کی۔
کینگرو آئی لینڈ جنوبی آسٹریلیا کی ابتدائی بنیاد کا مرکز بنا۔ یہاں 1836ء میں پہلی آزاد کالونی قائم ہوئی۔ تاہم پانی کی قلت اور مشکلات کے باعث کئی آبادکار مین لینڈ منتقل ہو گئے، جبکہ کچھ خاندان خلیجوں اور ندیوں کے کنارے آباد رہے۔
ابتدائی کسانوں نے گندم، جو، بھیڑیں اور مویشی پالے، اور ماہی گیری کی۔ تھوڑی مقدار میں اون بھی مین لینڈ بھیجی جاتی تھی۔ سخت حالات کے باعث انہوں نے دیگر ذرائع آزمائے، جیسے لکڑی کاٹنا، پسم سکِن بیچنا، یاکا گم جمع کرنا اور یوکلپٹس آئل کشید کرنا۔ بعد میں کینگرو اور والابی کی کھالیں بھی فروخت ہونے لگیں۔انیسویں صدی میں نمک کشی اور ساحلی وہیلنگ کے مراکز بھی قائم ہوئے، جن میں ڈی ایسٹریز بے اور ہاگ بے شامل ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد آسٹریلوی حکومت نے سپاہی آبادکاری اسکیم متعارف کرائی، تاکہ سابق فوجیوں کو روزگار دیا جا سکے۔ ہر فوجی کو 1,200 ایکڑ زمین کاشت کے لیے دی گئی۔
1952ء میں پہلے سپاہی آبادکار کینگرو آئی لینڈ پہنچے۔ وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ پارندانا میں ایک سادہ کیمپ میں رہتے تھے۔ دن رات محنت کے بعد 1964ء تک تمام آبادکار اپنی زمینوں پر منتقل ہو گئے۔یوں جو زمین پہلے بے کار سمجھی جاتی تھی، وہ جلد ہی زرخیز اور اقتصادی طور پر کارآمد ثابت ہوئی۔
ابتدائی زمانے میں جزیرے کی آبادی بہت آہستہ بڑھی۔ لیکن سپاہی آبادکاری اسکیم کے بعد 1948ء سے 1954ء تک آبادی تقریباً دوگنی ہو کر 3,000 کے قریب ہو گئی۔پارندانا زراعتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا، اور 1962ء تک 174 فارم الاٹ ہو چکے تھے۔
آج کینگرو آئی لینڈ کی آبادی تقریباً 5,000 افراد پر مشتمل ہے۔ جزیرے کے باسیوں میں تعلق اور دوستی کی روایت انہی آبادکاروں کی میراث ہے۔ ان میں سے تقریباً 20 فارم آج بھی ان ہی خاندانوں کی اولادوں کے زیرِ انتظام ہیں۔
سن 1836 سے اب تک جزیرے کے گرد 50 سے زائد جہاز تباہ ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے 1852ء میں پہلا لائٹ ہاؤس کیپ ولو بی میں قائم کیا گیا۔
ء میں ایک منفرد چوکور لائٹ ہاؤس کیپ بورڈا سن 1958 میں تعمیر ہوا، جو فلنڈرز چیز نیشنل پارک کی 30 میٹر بلند چٹانوں پر واقع ہے۔1906ء سے 1909ء کے درمیان کیپ سینٹ البنز اور کیپ دو کویڈک میں مزید لائٹ ہاؤسز قائم ہوئے (ماخوذ ازتاریخِ یورپ: مترجم مصنفہ)۔