NH

پاکستان کی فلسطین پالیسی اور مزاحمتی میڈیا۔ |تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کبھی سرکاری سطح پر تسلیم شدہ نہیں رہے، مگر بیک ڈور چینلز کے شواہد وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ  یہ روابط زیادہ تر  ضیاء الحق کے دور (1977–1988) میں مستحکم ہوئے۔ خصوصاً افغانستان کی جنگ اور مشرقِ وسطیٰ میں بدلتے تعلقات کے پس منظر میں اس  سلسلے مین خفیہ سفارت کاری  کی گئی۔ اس دوران اسرائیل مسلسل  پاکستان کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھا لہذا اُسے مطمئن کیا گیا۔1980 کی دہائی میں اسرائیلی میڈیا میں شائع رپورٹس کے مطابق پاکستان اور اسرائیل کی بعض اہم شخصیات  نے کچھ مواقع پر تیسرے ممالک میں ملاقات بھی  کی تھی۔ اس کے بعد مشرف دور(2000–2008) میں بھی  کچھ ایسے شواہد سامنے آئے جیسے2005 میں پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری نے ترکی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سلوان شالوم سے باضابطہ ملاقات کی۔یہ ملاقات ٹی وی پر نشر ہوئی، اور اسرائیل کی طرف سے کہا گیا کہ “یہ ایک تاریخی لمحہ ہے”۔قصوری نے کہا کہ یہ صرف “رابطے کی کوشش” ہے  اور اس کا مطلب اسرائیل کو  تسلیم کرنا ہرگز نہیں۔جنرل پرویز مشرف نے اسی سال نیویارک میں ایک یہودی تنظیم (AJC) کے عشائیے سے خطاب کیا، جسے اسرائیلی میڈیا نے خوب کوریج دی۔اسرائیلی اخبارات کے مطابق مشرف حکومت اور اسرائیل کے درمیان نرم رابطے قائم تھے، بالخصوص سیکیورٹی امور، ایران، اور مشرقِ وسطیٰ پر۔ اس کے بعد 2020–2021 کے دورانئے میں  اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ایک “سینئر پاکستانی عہدیدار” نے اسرائیل کا  خفیہ دورہ کیا (شاید UAE کے ذریعے) البتہ  اس کی تصدیق نہ ہو سکی۔ پاکستانی نژاد امریکی صحافی نور داؤد کا اسرائیلی صدر سے ملاقات، اور سوشل میڈیا پر پاکستان کو اسرائیل تسلیم کرنے کے مشورے وغیرہ بھی اسی دوران سامنے آنا شروع ہوئے۔ اسی عرصے میں سوشل میڈیا پر اسرائیل کے حق میں گفتگو شروع کی گئی اور کہا جاتا ہے کہ  بعض پاکستانی یوٹیوبرز اور بلاگرز کو اسرائیلی دوروں کی دعوت بھی دی گئی۔

اب ۱۳ اکتوبر ۲۰۲۵ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیلی پارلیمنٹ میں تقریر، نیتن یاہو کو خراج تحسین، اور اس سارے  منظر کو پاکستانی چینلز پر براہِ راست نشر کرنا، یہ سب  کوئی معمول کی کارروائی نہیں۔ ایک عرصے سے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان   خفیہ تعلقات  ، مخفی مذاکرات،بیک چینل ڈپلومیسی، ترکی اور خلیجی ریاستوں  کے ذریعے خصوصی رابطے، اسی طرح  کسی  تیسرے ملک کے  سفارت خانے کی وساطت سے سفارتی تعلقات کا قیام، ویزا، امپورٹ و ایکسپورٹ نیز   عوامی سطح پر تعاون جیسےتعلیم، ٹیکنالوجی، صحت، میڈیا، وغیرہ میں روابط کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ خیر وہ سب اپنی جگہ لیکن وہ قوم جو برسوں سے فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کو اپنی نظریاتی شناخت کا حصہ سمجھتی آئی ہے، اب اسی قوم نے اپنے  گھروں میں بیٹھ کر اسرائیلی پارلیمنٹ میں نیتن یاہو کے حق میں بجنے والی تالیاں براہِ راست دیکھی ہیں  اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ  جب غزہ کی زمین ابھی فلسطینیوں کے تازہ خون سے تر تھی۔ پاکستانیوں کے اندر  اسرائیل یا امریکہ کے خلاف جو تاریخی مخالفانہ جذبات ہیں، ان کو نرم کرنے کیلئے کی جانے والی نرم کوششوں میں سے یہ ایک بڑی کوشش ہے۔پاکستان میں اسرائیل مخالف سوچ کو بدلنے کیلئے ایسی نرم کوششیں کسی اعلامیے کے ذریعے نہیں بلکہ تدریج، فریب اور فکری چالوں  کے سہارے ہو رہی ہیں۔

ٹرمپ کی تقریر میں نیتن یاہو کی تعریف اور اسرائیل کی حمایت نے   پاکستانیوں کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ ہمارے اتحادیوں کی طاقت، ہماری طاقت ہے  اور ہمارے  مفادات  مشترکہ ہیں لہذا ہمارے اتحادی بن جاو تاکہ ہمارے مفادات میں شریک ہو جاو۔ اس سے دنیا کو بھی یہ پیغام گیا ہے کہ  دنیا والے  یاد رکھ لیں کہ امریکہ و اسرائیل کا  اتحاد ناقابلِ شکست ہے لہذا پاکستان سمیت دنیا کے دیگر  ممالک بھی  اسے تسلیم کریں۔اس کا بالواسطہ پیغام ایران اور  فلسطینی مزاحمتی گروپس (جیسے حماس، حزب اللہ) کو بھی پہنچا ہے کہ تم بھی جان لو کہ  اب پاکستانیوں کے گھروں میں بھی نیتن یاہو کو دیکھا جانے لگا ہے۔ یعنی اسرائیل کے خلاف پاکستان جیسا سخت گیر ملک بھی اب بدل رہا ہے۔ نیز  اب مرحلہ وار  اسرائیل کے حوالے سے پاکستانی میڈیا  بھی وہی کچھ دکھانے کے لیے تیار ہے جو امریکہ و اسرائیل چاہتے ہیں۔ ایسے میں کیا ہمیں یہ خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ایک میڈیا ہاؤس یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم آج  اسرائیلی بیانیے کو عام کر رہا ہے تو وہ  دراصل  ایک نظریاتی قتلِ عام کر رہا ہے،اور یہ   قتلِ عام  آنے والی نسلوں کے شعور کا قتلِ عام ہے۔ ماہرین کے مطابق   دیگر اقوام کا نظریاتی قتل  در اصل  کسی قوم کے  سوچنے کے  فریم ورک کو تبدیل کرتا ہے۔ یعنی  یہ ایک ایسی  شدید مداخلت ہے کہ  جو جبر کے بجائے زبان، دھمکی کے بجائے تقریر اور حملے کے بجائے  تصویر، رنگ اور آواز  کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی چینلز نے اسرائیلی پارلیمنٹ کی تقریبات کو دکھایا ہے تو  اس عمل سے انہوں نے  دراصل اسرائیل کے بارے مین  ایک ایسے نظریاتی فریم ورک  کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے کہ جو پاکستان کے  تاریخی اور اخلاقی فریم ورک کے برعکس ہے۔صاحبانِ حل و عقد کے طرف سے  پاکستانی نظریاتی  فریم ورک  کی یہ تبدیلی اپنے ہمراہ بہت سارے عواقب لئے ہوئے ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ   میڈیا کے ذریعے پیش کیے جانے والے الفاظ، تصاویر اور بیانات  پرانی پالیسیوں کی نئی  تشریح کرتے ہیں اور جدید  دنیا میں اس نئی تشریح کوہی نئی سچائی کے طور پر  جانا  اور ماناجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی نظریاتی تبدیلی ہوتی ہے کہ جسے ثقافتی اور سیاسی  طور پر  طاقتور طبقہ انتہائی خاموشی سے عوام پر مرحلہ وار مسلط کرتا ہے۔

ایسے میں نظریاتی مزاحمت کا کردار  نظریاتی میڈیا کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ نظریاتی مزاحمت ایک فکری اور ثقافتی عمل ہے جو کمزور یا مظلوم گروہوں کو اپنے حقائق، تاریخ اور شناخت کی حفاظت کا موقع دیتاہے۔ یہ مزاحمت متبادل میڈیا، تعلیمی مباحث، اور عوامی بیداری کے ذریعے سامنے آتی ہے۔ جیسے  ایمن عودہ جیسے اسرائیلی عرب رکن پارلیمان کا  فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور نیتن یاہو کی پالیسیوں پر  تنقید  کرنا وغیرہ۔ پاکستان میں گزشتہ دنوں میں اسرائیل کے حوالے سے   جو کچھ ہوا اس کی روشنی میں بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض پاکستانی چینلز نے  تنقیدی اور مزاحمتی  پہلو کو ترک  کر کے ناظرین کے اندر  اسرائیل کے حوالے سے یہ قوّت برداشت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کچھ دیر کیلئے اپنی اسکرین پر اسرائیل کو دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ لگتا ہے کہ  ایسے چینلز کو  یہ ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ وہ جلد یا بدیر  اسرائیل کو برداشت کرنے کیلئے پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر  تیار کریں۔ اس زاویے سے ارباب اقتدار  اب  پرانی فلسطین  پالیسی  یعنی اسرائیل نامنظور کی نئی تشریح  “دوریاستی فارمولا کی حمایت” کی شکل میں کر رہے ہیں۔ بلا شُبہ فلسطین پالیسی کی  نئی تشریح  “دوریاستی فارمولا کی حمایت”  کو عملی کرنے کیلئے اب  ارباب اقتدار کو  پاکستان کی اپنی قومی نظریاتی سرحدوں کی  تعریف بھی تبدیل کرنے پڑے گی۔ تعریف کرنے والے اور تعریفوں کو رائج کرنے والے یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہر نشر ہونے والا کلپ، ہر وائرل ہونے والا پیغام ،  ہر دکھائی دینے والی تصویر اور ہر شہ سرخی ہماری اجتماعی سوچ پر  کیا اثر ڈالتی ہے۔  وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ قوموں کی پہچان صرف ان کے پرچم، ترانوں یا سرکاری تعطیلات سے نہیں ہوتی، بلکہ ان کے نظریاتی موقف اور اخلاقی انتخاب سے ہوتی ہے۔کہنے کو تو  پاکستانی عوام آج بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، مگر ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے میڈیا کے ذریعے اپنی فلسطین پالیسی کی کیا تشریح کر رہے ہیں؟ اپنی ٹی وہ اسکرین  پر  کیا دیکھ رہے ہیں، اپنے بچوں کو  کیا دکھا رہے ہیں، اور ہمارے بچوں کو ہمارے چینلز سے  کیا سکھایا جا رہا ہے۔۔۔ کیونکہ ہماری  آج کی ٹی وی اسکرین ہی کل کو ہمارے بچوں کی قومی پالیسی  ہوگی۔ لہذا ہمیں آنے والے کل سے پہلے  اپنے بچوں کے ذہنوں کی حفاظت، اُن کی  ثقافتی شناخت اور سیاسی خودمختاری کا سوچنا چاہیے۔ اگر ہم نے اس میدان میں خاموشی اختیار کی تو یہی خاموشی آنے والے کل میں ہماری نسلوں کو  مٹانے کیلئے کافی ہو گی۔  ہمیں ہی آج  یہ سمجھنا ہو گا کہ میڈیا  محض معلومات کا  ذریعہ نہیں بلکہ نظریاتی مزاحمت کا ہتھیار ہے۔ لہذا آج کے   مزاحمتی میڈیا کو یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ جب  نظریاتی طور پر پاکستان اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور یہی پاکستان کی قومی پالیسی بھی ہے تو پھر عملی طور پر پاکستان دو ریاستی حل کی حمایت کیسے کرتا ہے ؟  کیا پاکستان اس دو ریاستی  فارمولے کی حمایت کرکے  غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف  پہلا قدم نہیں  اٹھا رہا؟

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link