NH

عصرِ حاضر کے معتبر تعلیمی ماڈل اور اُن کی اہم خصوصیات۔ | تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ہر ادارے کے ڈھانچے کے بیچ  ایک خاموش زبان سوفٹ وئیرموجود  ہوتی ہے۔  تمام ادارے کاغذوں، دستخطوں، فائلوں اور قواعد و ضوابط کی صورت میں اسی خاموش زبان یا سوفٹ وئیر کے تحت چلتے ہیں۔ جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ   اِسی سوفٹ وئیر پر کسی بھی ادارے کی فکری، اخلاقی اور معاشی ترقی کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ دیگر اداروں کی مانند تعلیمی اداروں میں  بھی یہی  خاموش زبان  سوفٹ وئیر اپنا کام دکھاتی ہے۔ اسی خاموش زبان کے تحت  خاموشی کے ساتھ ہر تعلیمی ادارے میں  کچھ پیمائشی اشاریے اور پیمانے بھی بطورِ خود کار  کام کر رہے ہوتے ہیں۔  علم التعلیم میں ان خودکار پیمانوں کو  تعلیمی میٹرکس یا  پیمائشی اشاریے کہا جاتا ہے۔

یہ میٹرکس دراصل وہ پیمائشی اشاریے ہوتے ہیں جن کے ذریعے کسی طالب علم کی علمی استعداد، کسی استاد کی تدریسی مہارت، کسی تعلیمی ادارے  کے کسی شعبے کی کارکردگی، اور مجموعی طور پر پورے تعلیمی نظام کی افادیت کو جانچا جاتا ہے۔ باالفاظِ دیگر پیمائشی اشاریے وہ مقدار یا معیار ہوتے ہیں جن کے ذریعے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو ناپا اور پرکھا جاتا ہے۔ یہ اشاریے مختلف اقسام کے ہو سکتے ہیں جیسے،طلباء کی کامیابی (نتائج، پاس فی صد، گریڈز)،حاضری کی شرح،اساتذہ کی پروفیشنل تربیّت میں دلچسپی،طلباء و اساتذہ کا نظم و ضبط،ریسرچ آؤٹ پٹ،انفراسٹرکچر کی دستیابی،فنڈنگ اور بجٹ کا  درست استعمال، ڈراپ آؤٹ ریٹ ۔۔۔ وغیرہ ۔  صاف ظاہر ہے کہ یہ  پیمانے  صرف نمبروں یا امتحانات کی جانچ  تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان میں طلباء کی تنقیدی سوچ، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت، اخلاقی رویے، تخلیقی استعداد، اور ڈیجیٹل مہارت کو ماپنا بھی شامل ہوتا ہے۔ ان پیمائشی معیارات کے ذریعے ایک تعلیمی ادارہ  خود اپنے نظام کا  احتساب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر  اگر کسی ادارے  میں بچیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح حدِ تشویش کو چھو رہی ہو  تو ماہرینِ تعلیم کیلئے  یہ محض ایک عدد نہیں بلکہ  ایک سماجی پیغام  بھی ہوتاہے۔ وہ اُس کے پیشِ نظر اُس سماجی پیغام کے جواب میں درست ردِّ عمل دکھانے کیلئے مناسب پالیسی وضع کرتے ہیں۔ جان لیجئے کہ   ایسے  تعلیمی ادارے  جو اپنے تعلیمی اشاریوں کو نظرانداز کرتے ہیں  وہ  معیاری تعلیم  فراہم کر ہی نہیں سکتے۔ چونکہ یہ اشاریے صرف معلوماتی نہیں ہوتے بلکہ یہ تعلیمی اداروں کو پالیسی سازی کیلئے  مقدمات فراہم کرتے ہیں۔ جب کسی ادارے میں تعلیمی معیار گرتا ہے یا طلباء کی کارکردگی کم ہوتی ہے، تو  ان پیمائشی اشاریوں سے حاصل شدہ  ڈیٹا کی روشنی میں نئی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں تاکہ کمزوریوں کو دور کیا جا سکے۔ اسی طرح، اگر کوئی پالیسی نافذ کی جاتی ہے تو بعد میں انہی اشاریوں سے اس کی افادیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان پیمانوں سے مدیریت کو بروقت پتہ چل جاتا ہے کہ اس وقت ہمارے ادارے میں  سیکھنے و سکھانے  کا عمل کس حد تک مؤثر ہے، آج کل تدریس صرف رٹا لگانے تک محدود ہے یا حقیقی فہم کو بھی چھو رہی ہے۔ مثلاً   ایک طالب علم امتحان میں تو اچھے نمبر لے رہا ہے لیکن کہیں  وہ    اخلاق، آداب، اجتماعی فعالیت اور ٹیم ورک میں پیچھے تو نہیں رہ گیا۔

یہ پیمائشی اشاریے وزارت تعلیم، نصاب ساز ادارے، ماہرین تعلیم، محققین، اساتذہ، اور بعض صورتوں میں تعلیمی  تنظیمیں مل کر تشکیل دیتی ہیں۔ وزارت تعلیم عام طور پر قومی سطح پر بڑے اشاریے اور تعلیمی اہداف متعین کرتی ہے جن پر پورا نظام تعلیم استوار کیا جاتا ہے۔ نصاب ساز ادارے ان اہداف کو تعلیمی مواد میں منتقل کرتے ہیں، اور اساتذہ انہیں روزمرہ تدریس میں عملی جامہ پہناتے ہیں۔بین الاقوامی ادارے جیسے   یونیسکو اور او ای سی ڈی  بھی کئی ممالک کے لیے  تعلیمی میدان میں رہنما کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پی آئی ایس اے  جیسے عالمی معیارات ممالک کی تعلیمی پالیسیوں کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارے خود بھی اپنی داخلی ضروریات کے مطابق کچھ مخصوص پیمائشی اشاریے تشکیل دیتے ہیں جیسے طالب علم کی حاضری کی شرح، استاد کے ورود و خروج کے لمحات،  کورس مکمل کرنے کی رفتار یا ٹیچرز کی تدریسی نوآوری۔ اس کے علاوہ، اساتذہ کلاس روم کی سطح پر ایسے غیر رسمی تعلیمی معیارات اپناتے ہیں جو طلباء  کی ذہنی وسعت اور سمجھنے کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں۔

یہ تمام پیمائشی اشاریے اگرچہ مختلف سطحوں پر تشکیل دیے جاتے ہیں، لیکن ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ تعلیم کو صرف ڈگریوں اور نمبرات کی دوڑ سے نکال کر ایک بامقصد اور بامعنی عمل میں تبدیل کیا جائے۔ جب تک “تعلیمی پیمائشی اشاریے “وسیع، متنوع، اور  عملی طور پر نافذ   نہ ہوں، تب تک تعلیمی ادارہ غیر متوازن  رہتا ہے  اور اس کے  طلباء و اساتذہ کی صلاحیتیں محدود دائرے میں مقیّد رہتی ہیں۔
معیاری تعلیم کے لیے ایسے پیمانوں کی ضرورت ہے  کہ جو نہ صرف علم کی گہرائی ناپ سکیں بلکہ شعور، سوجھ بوجھ، اور سچائی کی پہچان کا معیار بھی قائم کریں۔ تعلیم کے ہمراہ ایسے ایسے پیمانوں کا ہونا از حد ضروری ہے چونکہ تعلیم  صرف  رٹنے اور امتحان دینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ جہتی  مسلسل ارتقائی عمل  ہے۔  آج کے دور میں تعلیمی کامیابی صرف نصابی کتب کی تکمیل یا امتحانات کے اعلیٰ گریڈز سے نہیں ناپی جا سکتی  بلکہ  اس کی پیمائش  ان پیمانوں سے کی جاتی ہے کہ جن سے اساتذہ کے تدریسی تجربے، مدیریت کی پیشہ وارانہ تربیّت اور   طلباء کی سوچ کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔

یہ پیمانے  پیمائش کر کے ہمیں بتاتے  ہیں کہ ایک طالب علم صرف یاد داشت کا محتاج نہیں بلکہ وہ ایک ایسا ذہن ہے جو سوال اٹھا سکتا ہے، دلیل دے سکتا ہے، اور نئی راہیں نکال سکتا ہے۔ ان پیمانوں کو اگر  تنقیدی سوچ، ڈیجیٹل خواندگی، اور جدید تعلیمی تقاضوں  کے ساتھ استعمال کیا جائے تو  تعلیم کو محض رٹے بازی سے نکال کر تربیّت  کی معراج تک  پہنچایا جا سکتا ہے۔

یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی تعلیمی کارکردگی کی  محض پیمائش کافی نہیں۔ یہ پیمائش اور پیمانے تب مفید اور موثر ہوتے ہیں جب ان سے اخذ شُدہ رپورٹس  کی بنیاد پر مؤثر تعلیمی پالیسیاں  مرتب  کی جائیں۔ تعلیمی پالیسی، وہ فکری دھارا ہے جو نظام تعلیم کو سمت عطا کرتا ہے۔ یہ محض قواعد و ضوابط کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک فکری معاہدہ ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو کس سوچ، کس مزاج، اور کس ویژن کے ساتھ پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ جب جب تدریسی عمل میں جدت لاتے ہوئے  نصابی پالیسیوں میں پیمائش کے نتائج  شامل کیے جاتے ہیں تو تب کوئی تعلیمی ادارہ بطورِ خود کار ایک  خاموش زبان کے ساتھ اپنا احتساب شروع کر تا ہے۔ اشاریے پالیسی کو جنم دیتے ہیں  اور پالیسیاں اشاریوں کو  نئی شکل میں مرتّب کرتی ہیں۔ یوں تعلیم ایک مستقل ارتقائی عمل کا نام ہے، جس میں ہر قدم کسی کی شخصی سوچ کے بجائے اجتماعی فکر، عملی تجربے اور شماریاتی بنیاد پر اُٹھایا جاتا ہے۔واضح بات ہے کہ نظامِ تعلیم میں حکمت کی آمیزش اُس وقت ممکن ہوتی ہے کہ  جب ہم  اپنی تعلیمی پالیسی کو پیمائشی اشاریوں کے تجربات و نتائج  کی روشنی میں متحرک کرتے ہیں۔ ہم جس معاشرے کی تشکیل  کرنا چاہتے ہیں  اس کی بنیاد ہمیں پیمائشی اشاریوں کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی پالیسی میں رکھنی ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان صرف ملازمت کے امیدوار نہ بنیں بلکہ فکری رہنما، اخلاقی انسان اور ٹیکنالوجی کے معمار بنیں، تو ہمیں تعلیمی پالیسی کو پیمائشی اشاریوں کے نتائج کی روشنی میں  اس نہج پر استوار کرنا ہوگا جہاں معیار، مقصد اور معنویت یکجا ہوں۔

تعلیمی اداروں کے پیمائشی اشاریے، جیسے طلباء کی کارکردگی، حاضری کی شرح، اساتذہ کی قابلیت، اور انفراسٹرکچر کی دستیابی، اس وقت تک کسی فیصلے میں ڈھل نہیں سکتے جب تک ان کا ڈیٹا درست طور پر جمع اور تیار نہ کیا جائے۔ ڈیٹا کولیکشن وہ ابتدائی زینہ ہے جس سے پورا نظام شفافیت کی سیڑھی چڑھتا ہے۔ یہ عمل سوالناموں، مشاہدات، امتحانی نتائج، بایومیٹرک حاضری، مالی رپورٹس، اور حتیٰ کہ لرننگ مینجمنٹ سسٹمز سے حاصل شدہ معلومات پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ خیال رکھیں کہ ناپختہ ڈیٹا، ناپختہ فیصلوں کو جنم دیتا ہے۔ لہذا ڈیٹا کی چھانٹی ناگزیر ہے۔ ڈیٹا کو صاف کرنا، غیر متعلقہ یا نامکمل معلومات کو الگ کرنا، فارمیٹ کو یکساں بنانا، اور اسے اس انداز میں ترتیب دینا کہ تجزیہ ممکن ہو سکے  یہ سب اقدامات پالیسی بنانے سے پہلے کے  عمل کا حصہ ہیں۔ یہ گویا خام سونے کو کندن بنانے جیسا عمل ہے۔

پالیسی سازی میں اس تیار شدہ ڈیٹا کی اہمیت یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر فیصلے بغیر  چھانٹے ہوئے  ڈیٹا کے مطابق ہوں گے  تو وہ تعلیمی نظام کو درست سمت میں لے جانے کے بجائے مزید پیچیدگیوں میں الجھا دیں گے۔  چھانٹی شُدہ اور مرتّب  ڈیٹا ہی  پالیسی ساز کو یہ بتاتا ہے کہ مسئلہ کہاں ہے، کس درجے کا ہے، اور اس کا ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے۔ یہ عمل تعلیمی انصاف، بجٹ کی تقسیم، اساتذہ کی تعیناتی، اور سہولیات کی فراہمی جیسے فیصلوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔مزید یہ کہ جب کوئی تعلیمی  پالیسی نافذ ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات کو جانچنے کے لیے بھی وہی ڈیٹا دوبارہ  کام آتا ہے ، یعنی مرتّب  ڈیٹا نہ صرف پالیسی کو جنم دیتا ہے بلکہ پالیسی کی کارکردگی کی پیمائش کرنے میں مددگار بھی ہوتا ہے۔

یاد رکھئے کہ  تعلیمی ادارہ  اسناد و القابات بانٹنے کا کوئی کارخانہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں انسان کی شخصیت  اور ملک و قوم کے مستقبل کو تراشا جاتا ہے۔  چنانچہ  یہ  تراش خراش مضبوط تعلیمی پیمانوں کے نتائج پر مبنی ٹھوس تعلیمی  پالیسیز    کو اپنائے بغیر ممکن نہیں۔ موجودہ  صدی میں کسی  تعلیمی ادارے کی کامیابی کا پیمانہ اب محض طلباء کی تعداد، امتحانات کے نتائج یا اسکولوں کی عمارتیں  نہیں رہیں بلکہ   اس دور میں ماہرینِ تعلیم کے نزدیک  ایک معتبر  اور حقیقی تعلیمی ماڈل  کیلئے ضروری ہے کہ وہ  اسٹریٹیجک منصوبہ بندی، کارکردگی  میں نظم و ضبط اور ٹھوس  اعداد و شمار پر مبنی پالیسی   سے مرکّب ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link