ایران نے اسرائیل کا کتنا نقصان کیا؟۔ | تحریر : نذر حافی
طوفان الاقصی کے بعد ایک قیامت تھی جو غزہ پر ٹوٹی۔ جتنا ظلم بڑھ رہا تھا لوگ اُسی قدر مدد کیلئے ایران کو پکار رہے تھے۔ سب یہی سوچ رہے کہ اسرائیل کو جواب دینے میں ایران کی طرف سے اتنی تاخیر ؟۔ البتہ جو لوگ پلاننگ اور اسٹریٹیجک کے فرق کو سمجھتے ہیں انہیں یہ تاخیر بالکل محسوس نہیں ہوئی۔اُن کیلئے یہ تاخیر معمول اور توقع کے عین مطابق تھی۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ اہلِ ایران کے ہاں تمام تر مسائل اور اقدامات کی کسوٹی بانی انقلابِ اسلامی امام خمینی ؒ کے افکار و نظریات ہیں ۔ وہ کوئی ایرانی حکومت ہو یا ایرانی عوام، سب نے حضرت امام خمینی کے زمانے سے ہی اپنا حقیقی دشمن امریکہ کو قرار دے رکھا ہے ۔ سارے ایرانی اسرائیل کو امریکہ کی ایک پراکسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لہذا ایران کی طرف سے اسرائیل کے مقابلے میں براہِ راست خود میدان میں اُترنا یہ ایران کے نیشنل اور انٹرنیشنل قدوکاٹھ کے خلاف تھا۔
ایران کی طرف سے اسرائیل کی گوشمالی کا فریضہ ایران کی نیابت میں فلسطین، یمن، عراق، شام، اور لبنان وغیرہ میں موجود ایران کے حمایت یافتہ مجاہدین نے ہمیشہ بطریقِ احسن انجام دیا ہے۔ ایران کا یہ طرزِ عمل امریکی دفاعی ماہرین کیلئے کسی بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں۔وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایران سائنس و اقتصاد، دفاع و تعلیم ۔ اپنی تیاریاں امریکہ کو سامنے رکھ کر کر رہا ہے۔ امریکہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی طرح ایران کو مجبور کر کے براہِ راست اسرائیل کے سامنے کھڑا کرے اور ایران کو ایک مرتبہ پھر صدام کے بعد اسرائیل سے الجھا کر رکھ دے۔
ایسا کرنے کیلئے محدود اور چھوٹی سوچ رکھنے والے مسلمانوں کو بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر کیا کہ ایران خود کیوں اسرائیل پر حملہ نہیں کرتا؟۔ ایرانی کئی سال پہلے یہ جان چکے تھے کہ امریکہ اُن کیلئے ایک ے ایسا جال ضرور تیار کرے گا۔
بالاخر وہ وقت آگیا لیکن امریکہ ایک مرتبہ پھر اپنے ہی جال میں الجھ گیا۔ ایران نے اسرائیل پر حملے سے پہلے اسرائیل کو بے نقاب ہونے کا پورا موقع فراہم کیا۔ اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر بھی حملہ کر دیا۔ یوں ساری دنیا کے انسانوں نے اسرائیل کے وحشی چہرے کو اچھی طرح دیکھا۔
اس کے بعد حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کے اہلِ خانہ کی شہادتوں نے بھی لوگوں کی بے چینی میں بے پناہ اضافہ کیا۔ ان آخری دنوں میں ہر شخص بے تاب ہو گیا، حتی کہ ایرانی خود غم وغصے سے پھٹ رہے تھے کہ اب جو بھی ہو جائے لیکن اسرائیل پر ایران فوری حملہ کردے۔یعنی ایران نے اتنا صبر کیا کہ اسرائیل پر حملہ کرنا اب ایک امریکی چال کے بجائے ، ہر انسان، ہر مسلمان اور ہر ایرانی کی خواہش بن گیا تھا۔
اس سے پہلے امریکہ و اسرائیل نے مسلمانوں کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ دنیا میں ایران ایک تنہا ملک ہے، وہاں ملاں حکومت ہے جسے ایران کے لوگ اور مسلمان ممالک بھی پسند نہیں کرتے، اور ہماری پابندیوں کے باعث ایران سائنس و ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت پیچھے رہ گیا ہے وغیرہ وغیرہ
ایران نے اس ایک حملے سے امریکہ و اسرائیل کے سارے پروپیگنڈوں کا توڑ کر دیا۔ حملہ کرنے سے پہل ایران کی طرف سے تمام تر ے سفارتی آداب اور پروٹوکولز کو انجام دیا گیا۔ ایران نے اقوام متحدہ کے قانون کی بھرپورپاسداری کی، ہمسایوں اور مسئلہ فلسطین کے اسٹیک ہولڈرز سے مکالمہ کیا، اوربڑی طاقتوں کو اپنا قانونی حق استعمال کرنے سے خبردار کرنے کے بعد کمالِ جرائت کے ساتھ کئی گھنٹوں پر محیط یہ آپریشن کامیابی سے انجام دیا۔
اس آپریشن سے اسرائیل کو جو حقیقی اور اساسی نقصان ہوا اُسے ٹھیک طریقے سے صرف امریکہ و اسرائیل ہی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اسرائیل میں غزہ جیسے مناظر دیکھنے کے خواہش مند ہیں وہ در اصل ایک انتقامی سوچ تک محدود ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ امریکہ و اسرائیل کا وجود ہی ظلم و بربریت پر قائم ہے۔ دنیا میں دو ہی مرتبہ ایٹم بم استعمال ہوا ہے اور وہ امریکہ نے استعمال کیا ۔ان دنوں جو حال اس وقت غزہ کا ہے یہی حال کتنے سالوں تک امریکہ نے افغانستان کا کئے رکھا۔
ظلم، شقاوت، درندگی اور قتل و غارت میں امریکہ و اسرائیل کی برابری کرنے کی کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایران نے جنگ میں بھی سول آبادیوں کے بجائے صرف اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا کر عالمِ اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ایران نے ثابت کیا ہے کہ ہم مسلمان جنگ میں بھی انسانیّت سے نہیں گرتے۔ یہ ایران کی فوجی ہی نہیں بلکہ عسکری تاریخ کی سب سے بڑی اخلاقی فتح بھی ہے۔
جو لوگ ایرانی حملوں کے بعد اسرائیل میں ملبے اور بلڈنگوں کے ڈھیر دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی یہ خواہش بھی عنقریب میڈیا پوری کر دے گا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ ایران نے فقط چند بلڈنگوں کو گرانے کیلئے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ ایران نےاسرائیلوں کے سارے گھمنڈ، تکبّر، شیاطانی خوابوں، جارحانہ منصوبوں اور ظالمانہ ارادوں کو تباہ کرنے کیلئے حملہ کیا تھا۔
کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اتنی بھاری سرمایہ کاری اور دوستی کے نعروں کے باوجود سوائے اردن کے سعودی عرب سمیت کسی عرب ریاست نے اسرائیل کی مدد نہیں کی؟۔اُردن بھی امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مختلف معاہدوں کی وجہ سے جو کرچکا وہ کرچکا۔ وہ بھی اس سے آگے اسرائیل کے ساتھ ایک قدم نہیں چلے گا۔ اگر اسرائیل جوابی حملہ کرے تو مطمئن رہیں کہ اردن ہر گز اسرائیل کی مزید مدد نہیں کرے گا۔
پاکستان اور ترکی سمیت ساری عرب ریاستوں کا اسرائیل کی حمایت نہ کرنا اسرائیل اور امریکہ کے سارے خرچے اور سرمائے کے ڈوبنے کا اعلان ہے۔ ان سارے ممالک پر کئے جانے والے امریکی و اسرائیلی خرچے کی ایک پائی بھی اس مشکل وقت میں امریکہ و اسرائیل کے کام نہیں آئی۔
دوسری طرف یہ ایران کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس نے ساری مسلمان ریاستوں کے درمیان ایک ہم آہنگی اور انڈراسٹینڈنگ کو جنم دیا ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا کہ جب اسلامی ممالک کو فلسطین کا ٹھیکیدار بننے کے چکر میں استعمال کیا جاتا تھا۔اب ایران نے طوفان الاقصی کے بعد فراخدلی کے ساتھ سب اسلامی ممالک کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔سب نے صورتحال کا جائزہ لیا اور آگے نہیں بڑھے ۔ گویا یہ سب اسلامی ریاستوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے لیکن اگر ایران آگے بڑھے تو اسرائیل کی مدد نہیں کریں گے۔
اب مسلمان ممالک کو سمجھ آ گئی ہے کہ فلسطین ٹھیکیداری سے نہیں بلکہ قربانی سے آزاد ہوگا۔
چاروں طرف سے امریکہ و اسرائیل کے دوست ممالک کے درمیان گھرے ہوئے ایران کی یہ بہت بڑی سفارتی و سیاسی کامیابی ہے کہ کسی نے بھی ایران کے خلاف کوئی بیانیہ نہیں دیا اور نہ ہی ماضی کی طرح ایران کو اپنے لئے خطرہ قرار دیا۔ اسلامی ریاستوں کے درمیان اس درجے کی ہم آہنگی یہ ایران کی ایک ایسی فتح ہے کہ جسے صرف دوراندیش لوگ، اور بڑے پائے کے سیاسی و عسکری ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
اسرائیل پر ایران نے حملے کی تیاری بہت پہلے سے کر کھی تھی۔ تاہم تدبیر کا تقاضا تاخیر تھا۔ ایران کی تیاری کو اس واقعے سے بھی جوڑ کر دیکھیں کہ گزشتہ ایام میں ایران نے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر امریکہ کو سمجھا دیا تھا کہ خبردار! امریکہ یہ جان لے کہ اگر اس نے پاکستان کے اندر سے کسی فوجی مہم کی کوشش کی تو ہم وہاں بھی امریکی ٹھکانوں کا تعاقب کریں گے۔ امریکہ نے اس پیغام کو اچھی طرح سمجھا اور اب اس وقت اسرائیل سے زیادہ امریکہ پریشان ہے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائی کی صورت میں امریکہ واضح طور پر اس سے علیحدگی کا اعلان کر چکاہے۔ امریکہ و اسرائیل کی اس سے بڑی شکست اور تباہی کیا ہو گی کہ دونوں کی طاقت اور دعووں کا بھرکس بن گیا ہے۔اس حملے کے بعد اب اگر ایران جہادِ فلسطین کا عمومی اعلان کر دے تو ساری دنیا سے لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے حاضر ہو جائیں گے لیکن اسرائیل کیلئے کوئی دوسرا تو کیا خود امریکہ بھی اپنے فوجی نہیں مروانا چاہتا۔
حالات حاضرہ پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس حملے میں ایران نے اپنے بھاری اور اصلی ہتھیار استعمال نہیں کئے۔ ایران کے اس کامیاب جنگی تجربے کے بعد اگر اسرائیل جوابی حملے کی حماقت کرے گا تو اُسے بھی معلوم ہے کہ اب کی بار ہتھیار بھی مختلف ہونگے اور ایرانیوں کے نشانے بھی بہت اچھے ہیں ۔ایرانیوں کے نشانے دیکھ کر ایران کے اندر اورساری دنیا میں مسلمان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے جبکہ اسرائیل کے اندر صہیونی اور ساری دنیا کے یہودی خوف سے مر رہے ہیں۔
پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں کہ ایران نے اسرائیل کا کتنا نقصان کیا؟