پارافیلیا۔۔۔ ایک جُرم ہی نہیں ایک بیماری بھی ہے۔ | تحریر: نذر حافی
دماغ کو جیسے پیٹ کی بھوک محسوس ہوتی ہے، ویسے ہی جنسی بھوک بھی۔ ہمارے ہاں جب بھی کہیں جنسی ہراسانی کا واقعہ سامنے آتا ہے تو واویلا مچ جاتا ہے۔ ساری قوم کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ مجرم کو سخت سزا دی جائے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سزائیں ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام ہیں۔ اگر ہم جنسی بھوک کے بھڑکنے کے عمل کو سمجھ لیں تو کافی حد تک ہم خود بھی اپنے خاندان کو اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جنسی بھوک کے بھڑکنے کے عمل کو اس مثال سے سمجھئے!۔ تمام چھوٹے بڑے تاجر، مافیاز اور سوداگر اپنی اپنی اجناس اور پروڈکٹس کو فروخت کرنے کیلئے عوام میں “اپنی اپنی پروڈکٹ کی نسبت” طلب اور بھوک کے احساس کو بڑھکاتے ہیں۔ مختلف طرح کے اشتہارات، بیانات، جملات، تصاویر اور کلپس سے لوگوں کو مرعوب اور متاثر کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک عام آدمی جا کر اُن کی پروڈکٹس کو خریدنا شروع کر دیتا ہے۔
منشیات کی فروخت سے لے کر جنسی تشدد کے پیچھے ہر جگہ یہی طلب اور بھوک بھڑکانے کی سیاست کارفرما ہے۔ کہنے کو تو ہمارے ہاں سب سے بُرا اور ناپسندیدہ فعل جنسی بے راہروی کو سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ برائی اتنی عام ہوچکی ہے کہ مولوی منظور مینگل صاحب اپنے کلپس میں دینی مدارس کے اندر جنسی بےراہروی کے عام ہونے کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں اور آئے روز مختلف قاری و حافظ قرآن اور منقبت خوان صاحبان کے ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جب اپنے آپ کو شیخ الحدیث، قاری قرآن اور حافظ قرآن کہنے والوں میں اس بیماری کی شرح اتنی بلند ہے تو پھر سیاستدانوں اور عام لوگوں کی کیا بات کی جائے۔
جنسی انحراف ایک بیماری ہے جسے پارافیلیا کہتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں یہ جنسی انحراف ایک جرم سے بڑھ کر سماجی بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس بیماری کی روک تھام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ کسی بھی بیماری کے سائنٹفک علاج کے بجائے پھکیاں، ٹونے اور تعویز سے کام نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ بیماری بگڑ نہ جائے۔ پیرافیلیا دراصل ایک احساساتی بیماری ہے۔ اس کی ابتدا کسی نامحرم کو دیکھنے، یا نامحرم کی تصویر یا نامناسب جنسی تصورات سے ہوتی ہے۔ آپ اندازہ لگا لیں کہ ہمارے ہاں ٹی وی اور موبائل کی اسکرین سے لے کر صابن و گاڑیوں پر بنی ہوئی تصاویر اور دیواروں پر لگے ہوئے پوسٹرز۔۔۔ یہ سب چوبیس گھنٹے لوگوں میں جنسی بھوک بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔
کسی کے نامناسب بدن، تصویر یا کلپ کو دیکھ کر ایک جنسی مریض اپنے وجود میں جنسی تحریک محسوس کرتا ہے۔ قدم قدم پر ہر نامناسب منظر اُس کے دماغ میں دیا سلائی کی مانند چنگاری سلگاتا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی دماغ تخیل اور تصوّرات کیلئے پٹرول اور گرم لاوے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب ایک دماغ کے اندر بار بار جنسی عمل کی چنگاریاں شعلہ ور ہوتی ہیں تو بالاخر ایک جنسی مریض کا وجود لاوے کی طرح پھٹنے لگتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے کہ جب ایسا مریض کسی بھی انسان، جانور، بچے۔۔۔ پر حملہ کر دیتا ہے۔ باعرض معذرت یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ خواتین چونکہ زیادہ حسّاس ہوتی ہیں، لہذا ہر طرح کے انحرافات اُن میں زیادہ آسانی سے جنم لیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ خواتین اپنے حجاب کے حوالے سے زیادہ محتاط رہیں۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق اس بیماری کی کئی قسمیں اور شکلیں ہیں۔جنسی بیماری کی بعض ایسی اقسام ہیں کہ جن کے مریض اپنی برہنہ تصاویر بنانے اور انہیں نشر کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح تنگ اور ٹائٹ لباس پہننے والے لوگ بھی، فحش ہنسی مذاق کرنے والے حضرات اور جنسیات پر مبنی کہانیاں اور لطیفے سنانے والے بھی اسی قبیل میں شامل ہوتے ہیں۔ المختصر وہ سارے عوامل جنسی انحراف میں آتے ہیں، جو ایک عام شخص کو عُرف سے ہٹ کر جنسی لذّت حاصل کرنے پر ابھارتے ہیں۔کسی بھی سماجی بیماری کا فوری علاج ضروری ہے، تاہم اس کا آغاز اپنے آپ سے کرنا چاہیئے۔
اس حوالے سے مندرجہ ذیل نکات والدین کیلئے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں:۔
سب سے پہلے اپنے موبائل، کمپویٹر، گھر، دکان وغیرہ کو نامناسب تصاویر، ڈراموں، کلپس اور فلموں سے پاک کریں۔
اگر آپ کوئی ایسی چیز گھر میں لاتے ہیں، جس پر نامناسب تصویر ہے تو سب سے پہلے اُس تصویر کو کھرچ ڈالیں۔
والدین خود ایسی محافل میں اور ایسے مقامات پر نہ جائیں، جہاں پر مرد و زن بغیر حجاب کے گھومتے پھرتے ہوں، مجبوری کی صورت میں اپنے بچوں کو ہمراہ نہ لے جائیں۔
اپنے بچوں کو عبادات سے زیادہ فلسفہ عبادات اور دین کا حکیمانہ پہلو سمجھائیں۔
بچوں کی بروقت ازدواج اور شادی کیلئے اُن کے بلوغ سے پہلے منصوبہ بندی کرکے رکھیں۔
بچوں کو سادہ اور نسبتاً آرادم دہ لباس کا عادی بنائیں، بچوں میں یہ شوق پیدا کریں کہ وہ لباس اور شکل و صورت میں فلمی ایکٹرز کے بجائے نیک اور مومن لوگوں کی شباہت اختیار کریں۔
بچوں کو دستک دے کر گھر اور کمرے میں داخل ہونے کا عادی بنائیں اور سوتے وقت بچوں کے کمروں کو مکمل تاریک نہ ہونے دیں۔
اپنے بچوں کو بتائیں کہ آپ کا جسم خدا کی طرف سے آپ کے پاس امانت ہے، اسے کوئی نہ چھوئے۔
پاکستان میں جو خواتین نامناسب لباس پہن کر عورت کی آزادی کی بات کرتی ہیں، وہ دراصل اپنے عریاں بدن کے ساتھ لوگوں کی جنسی بھوک بھڑکا کر عورت کی آزادی کو مزید خطرے میں ڈال رہی ہیں، والدین کو ایسے لوگوں کے پروپیگنڈے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ اپنے اردگرد کسی کو جنسی مریض پائیں تو اُسے فوراً ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں، اس کا علاج ہیروئن کے نشے کی مانند مشکل ضرور ہے، لیکن ممکن ہے۔
پارافیلیا کی جڑیں انسان کے دماغ میں ہوتی ہیں، لہذا اپنے بچوں کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ کسی وقت فارغ ہیں یا چھٹی کا مطلب فراغت ہے۔ بچوں کے اوقاتِ کار کو اُن کی عمر کے مطابق تقسیم کریں۔ اُنہیں اکیلے دوستوں کے ساتھ کلبوں میں کھیلنے کودنے، نامناسب اوقات میں گھر سے باہر جانے، زیادہ دیر تک خواہ مخواہ کچھ سوچتے رہنے یا رات کہیں اور بسر کرنے کی فرصت ہرگز نہ دیں۔
نذر حافی
کہنے کو تو ہمارے ہاں سب سے بُرا اور ناپسندیدہ فعل جنسی بے راہروی کو سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ برائی اتنی عام ہوچکی ہے کہ مولوی منظور مینگل صاحب اپنے کلپس میں دینی مدارس کے اندر جنسی بےراہروی کے عام ہونے کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں اور آئے روز مختلف قاری و حافظ قرآن اور منقبت خوان صاحبان کے ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جب اپنے آپ کو شیخ الحدیث، قاری قرآن اور حافظ قرآن کہنے والوں میں اس بیماری کی شرح اتنی بلند ہے تو پھر سیاستدانوں اور عام لوگوں کی کیا بات کی جائے۔
واقعاً منظور مینگل جیسے لوگ ہی ہر عربی لفظ کو قرآن سمجھ کر انسانیت کا قتل کر دیتے ہیں۔
ان جیسے لوگوں پر اداروں کو نوٹس لیکر ایف آئی آر کاٹنی چاہئیے۔