چین کےجِنگ- جن- جی انڈسٹریل کلسٹر منصوبے کے دس سال۔ | تحریر : سارا افضل، بیجنگ
بیجنگ-تیانجن-ہیبی خطے میں بہتر انضمام کے ساتھ زیادہ متوازن ترقی حاصل کرنے کے لیے فروری ۲۰۱۴ میں صدر شی جن پھنگ نے ایک مربوط قومی ترقیاتی حکمت عملی پیش کی تھی۔ اس کا مقصد اقتصادی ترقی اور جدت طرازی کو فروغ دیتے ہوئے علاقائی آمدنی کے فرق کو دور کرنا اور آلودگی کی سطح کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر معاشی ڈھانچے ، صاف ماحول اور بہتر عوامی خدمات کا ایک ماڈل تیار کرنا تھا۔ مئی ۲۰۲۳ میں ، چین نے بیجنگ – تیانجن – ہیبی خطے میں صنعتوں کی مربوط ترقی کے نفاذ نو کے منصوبے کی نقاب کشائی کی ۔ اس منصوبے کا مقصد علاقے میں عالمی معیار کے صنعتی کلسٹرز کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ یہ اسٹریٹجک منصوبہ چین کی عالمی مسابقت بڑھانے کے لیے ابھرتے ہوئے شعبوں کو ترجیح دیتا ہے جن میں الیکٹرک گاڑیاں ، بائیو فارماسیوٹیکل ، ہائیڈروجن توانائی ، صنعتی انٹرنیٹ ، اعلی درجے کی صنعتی مشینری اور روبوٹکس شامل ہیں ۔
حالیہ برسوں میں ، “جنگ-جن-جی” خطے میں صنعتی اپ گریڈنگ ، ٹریفک مینجمنٹ اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبوں میں کیا جانے والا تعاون ،قابل ذکر نتائج کے ساتھ گہرا ہوا ہے ۔اس خطے میں غیر ملکی تجارت کی قدر ۲۰۱۴ میں ۳ اعشاریہ ۷۴ ٹریلین یوآن تھی جو ۲۰۲۳میں ۵اعشاریہ ۳ ٹریلین یوآن ہوگئی ۔یہ قومی حکمت عملی کے نفاذ کے بعد سے گزشتہ دہائی میں ۳۴اعشاریہ ۴فیصد کا نمایاں اضافہ ہے۔ ۲۰۲۳ میں صنعتی کلسٹر کی مجموعی اقتصادی پیداوار ۱۰اعشاریہ ۴ ٹریلین یوآن سے تجاوز کر گئی ہے،مزید برآں، خطے کی مجموعی جی ڈی پی ۱۰ ٹریلین آر ایم بی کے متاثر کن سنگ میل تک پہنچ گئی۔ اس صنعتی کلسٹر میں ، خصوصی، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کا آغاز ہوا، یہ ادارے ، جن کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے ، ٹیکنالوجی کے فروغ اور ایپلی کیشن سروسز ، خصوصی سازوسامان کی مینوفیکچرنگ اور آلات کی مینوفیکچرنگ جیسے مخصوص شعبوں میں کام کرتے ہیں، ان کا مارکیٹ شیئر بھی قابلِ قدر ہے اور یہ مضبوط اختراعی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔ مزید برآں ، بیجنگ ، تیانجن اور ہیبی کے کاروباری اداروں کی اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں جنگ –جن- جی خطے میں ۹۰ہزار سے زیادہ شاخیں اور ماتحت کمپنیاں قائم ہوئی ہیں جو خطے میں کاروبار کی وسیع رسائی اور باہمی تعاون کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہیں۔
بیجنگ، تیانجن اور ہیبی کی مشترکہ کوششوں سے اس خطے میں صنعتی کلسٹرز نے تیزی سے جگہ بنائی ہے۔ بیجنگ ہیونڈائی کا ایک نیا آٹو پلانٹ ہیبی کے شہر سیچو میں کام کر رہاہے ۔ تین علاقوں کی مربوط ترقی کے بعد ہیبی میں شروع ہونے والے سب سے بڑے صنعتی منصوبے کے طور پر یہ ۴۰ سے زیادہ معاون کمپنیز کو سیچو لایا ہے ، جس سے شہر میں آٹو انڈسٹری کلسٹر پیدا ہوا ہے۔صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سات سالوں میں، ہیبی نے بیجنگ اور تیانجن سے منتقل کیے گئے ۲۴ ہزار سات سو اکہتر سے زائد اداروں کو جگہ دی ہے اور ہول سیل مارکیٹس میں ۴۰ ہزار سے زیادہ تاجروں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں.بیجنگ کا ژونگ گوانکون ، جسے چین کی سلیکون ویلی بھی کہا جاتا ہے ، خطے میں تکنیکی جدت طرازی کے ایک اہم ذریعے کے طور پر کام کر رہی ہے ۔ گزشتہ سال کے آخر تک ،یہاں واقع کاروباری اداروں نے تیانجن اور ہیبی میں۸ ہزار ۶ سو سے زیادہ شاخیں قائم کیں اور بیجنگ کے ٹیکنالوجی معاہدوں کا مجموعی کاروبار ۱۴۰ بلین یوآن سے تجاوز کر گیا۔
اپنی صنعتی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے، خطے نے اسٹریٹجک طور پر پانچ اقتصادی ترقیاتی زون (ای ڈی زیڈ) قائم کیے ہیں جنہوں نے صنعتی ترقی اور تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس علاقے میں مجموعی طور پر ۴۵ نئے قومی صنعتی مراکز موجود ہیں۔ ای ڈی زیڈ ز میں تعمیر کردہ یہ بنیادیں تکنیکی ترقی، جدت طرازی اور صنعتوں کی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اہم محرکات کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ۲۰۲۲ کے آخر تک ،اس خطے نے کامیابی کے ساتھ ۲ لاکھ پچاس ہزار 5 جی بیس اسٹیشنز کا ایک وسیع نیٹ ورک نصب کیا تھا ، جس نے پریفیکچر سطح اور کاؤنٹی سطح کے شہروں سمیت تمام شہری علاقوں میں جامع 5 جی نیٹ ورک کوریج کو یقینی بنایا ۔ اس وسیع انفراسٹرکچر نے ہموار رابطے کی سہولت فراہم کی ہے اور خطے کی ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کیا ہے ، جس سے کاروباری اداروں کو تیز رفتار اور قابل اعتماد 5 جی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنایا گیا ہے۔
۲۰۱۴ کے بعد سے بیجنگ نے ماحولیاتی استحکام کے عزم میں بھی قابل ذکر پیش رفت کی ہے جس میں تقریبا ۳ہزار مینوفیکچرنگ اداروں اور آلودگی پھیلانے والے کاروباری اداروں کو مؤثر طریقے سے ختم کیا گیا ہے۔ اس مربوط کوشش کے نتیجے میں شہر میں ایک صاف ستھرا اور زیادہ پائیدار صنعتی منظر نامہ پیدا ہوا ہے۔ 3 ہزار سے زیادہ مینوفیکچرنگ ادارے بیجنگ سے ہیبی اور تیانجن منتقل کیے جا چکے ہیں ۔ بیجنگ میں تقریبا ایک ہزار مارکیٹس اور لاجسٹکس مراکز کو منتقل یا اپ گریڈ کیا گیا ہےاور بیجنگ میں غیر قانونی عمارتوں کے انہدام کے بعد ۹ہزار ۲۰۰ سو ہیکٹر سے زیادہ اراضی کو خالی کیا گیا ہے۔ بیجنگ میں مجموعی طور پر ۲۸ سو سے زیادہ مینوفیکچرنگ کمپنیز اور آلودگی پھیلانے والے ادارے بند ہو چکے ہیں ۔ ۲۰۱۵ میں گائیڈ لائن کے ذریعے طے کردہ وسط مدتی اہداف میں سے ایک کے تحت ۲۰۲۰ تک دارالحکومت میں مستقل رہائشی آبادی ۲۳ ملین تک محدود کردی گئی تھی ۔ بیجنگ نے بلدیاتی حکومت کے انتظامی محکموں کو مشرقی مضافات میں اپنے ذیلی مرکز ٹونگژو ڈسٹرکٹ میں منتقل کر دیئے ہیں جہاں نقل و حمل کا ایک اعشاریہ ۲۸ ملین مربع میٹر زیر زمین مرکز زیر تعمیر ہے، جو ایشیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا مرکز ہے اور بین العلاقائی اور انٹرسٹی ریلوے کے ساتھ ساتھ متعدد میٹرو لائنوں کو جوڑتا ہے۔یہ بیجنگ کے سب سینٹر کی تعمیر اور ‘جنگ -جن -جی’ خطے کی مربوط ترقی کے لیے ایک تاریخی منصوبہ ہے۔
خطے کی مربوط ترقی نے جدت طرازی، صنعت اور سپلائی چین میں خاطر خواہ پیش رفت حاصل کی ہے۔ خطے نے ۲۰۲۳ میں ۴۷۱ بلین یوآن کی ہائی ٹیک مصنوعات کی درآمدات حاصل کیں ، جو ۲۰۱۴ کے مقابلے میں ۲۶ فیصد کا اضافہ ہیں۔تین اہم ابھرتے ہوئے شعبوں ، یعنی نئی توانائی کی گاڑی (این ای وی) ، لیتھیم بیٹری ، اور شمسی سیل ، نے خطے میں بڑھتی ہوئی درآمدات کو دیکھا ہے۔اگست ۲۰۲۳کے بعد سے، مسلسل پانچ مہینوں تک ہر ماہ ۳۰ ہزار سے زیادہ گاڑیاں فروخت کی ہیں، جس کی مجموعی سالانہ فروخت ۳ لاکھ۱۶ ہزار یونٹس ہے، جو سال بہ سال ۸۲ فیصد اضافہ ہے. نئی توانائی کی گاڑیوں کی فروخت ۵۷ ہزار یونٹس تک پہنچ گئی ہے ، جو کل فروخت کا تقریبا ۲۰فیصد ہے ، جس میں سال بہ سال ۴۳۱ فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
خطے کی کسٹم کلیئرنس انضمام کی پالیسی نے کاروباری ماحول کو مزید بہتر بنایا اور انٹرپرائز لاجسٹکس کے اخراجات کو کم کیا ، جس سے کاروباری اداروں کو غیر ملکی کاروبار کو وسعت دینے میں سہولت ملی۔دس سال پہلے، کسٹمز میں داخل ہونے اور جانے والی اشیاء بنیادی طور پر بڑی مقدار میں اجناس اور خام مال پر مشتمل ہوتی تھیں لیکن اب جدید صنعتی نظام کی تعمیر سے متعلق سامان کی تعداد، جیسے انٹیگریٹڈ سرکٹس، فارماسیوٹیکل میٹریل اور میڈیسن اور ہوائی جہاز کے پرزوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
۲۰۲۳ میں ، بیجنگ ، تیانجن اور ہیبی کی بندرگاہوں کے ذریعے درآمد اور برآمد کی قیمت ۳ اعشاریہ آٹھ ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی ، جو ۲۰۱۴ کے مقابلے میں ۲۸ اعشاریہ ۳ فیصد زیادہ ہے۔خطے میں جامع بانڈڈ زونز کی تعداد ۲۰۱۴ میں دو تھی جو بڑھ کر گیارہ ہوگئی ہے ، جس سے ۴۵۱ بلین یوآن مالیت کی غیر ملکی تجارت ہوئی ہے ، جو ۲۰۱۴ کے مقابلے میں ۱۰ اعشاریہ دو گنا زیادہ ہے۔خطے کے گیارہ زونز کی غیر ملکی تجارت کی قیمت چین میں تمام جامع بانڈڈ زونز کی قدر کا 7.1 فیصد ہے ، جو ۴ اعشاریہ ایک فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہے۔
۲۰۲۳ کے نفاذ نومنصوبے کے مطابق ، ۲۰۲۵ تک ، جنگ- جن -جی خطے کا مقصد خطے کی جامع طاقت کو اعلی سطح تک بڑھانا ، مشترکہ جدت طرازی میں کامیابیوں کو فروغ دینا ، جدید صنعتی نظام میں مسلسل اضافہ ، اور مسابقتی اعلی درجے کے کوآرڈینیشن سسٹم کو فروغ دینا ہے ان مربوط کوششوں کا مقصد جنگ جن جی میں اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھانے میں خطے کے اہم کردار کو بڑھانا ہے۔ اس منصوبے میں آٹھ اہم کام مختص کیے گئے ہیں جن میں علاقائی صنعتی ڈویژن اور پیداواری ترتیب کو بہتر بنانا، صنعتی بنیاد اور صنعتی چینز کی اعلی درجے کی سطح میں اضافہ ، علاقائی صنعتی جدت طرازی کے نظام کو بہتر بنانا جس کا مقصد اوپن انوویشن کیریئرز، کلیدی لیبارٹریوں، اور ایک بین العلاقائی سائنس اور ٹیکنالوجی جدت طرازی ماحولیاتی نظام کی تعمیر کو فروغ دینا ہے، اس کے علاوہ مشترکہ طور پر ڈیجیٹل معیشت میں نئے فوائد تشکیل دینا جس میں نئے انفارمیشن انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ، 5 جی نیٹ ورکس اور گیگا بٹ آپٹیکل نیٹ ورکس کی تعیناتی کو مربوط کرنا ، اور آئی پی وی 6 ٹیکنالوجی پر مبنی نیکسٹ جنریشن انٹرنیٹ کی تعیناتی کو تیز کرنا شامل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سبز اور کم کاربن کی تبدیلی کو تیز کرنا، معیار، برانڈنگ اور معیارات کے انضمام کو فروغ دینا، اعلی معیار کے کاروباری اداروں کے گروپ کو فروغ دینا اور اسے مضبوط بنانا، تاکہ یہ خطے میں معروف صنعتی کاروباری اداروں کی مسابقت کو بڑھانے، صنعت، جدت طرازی اور ویلیو چینز کے عمودی انضمام کی حوصلہ افزائی کرنے اور متنوع صنعتی تعاون کے ماڈلز کو فروغ دینے کی حمایت کرسکے اس کے علاوہ ہمسایہ علاقوں، دریائے یانگزی ڈیلٹا، گوانگ دونگ-ہانگ کانگ-مکاؤ گریٹر بے ایریا اور دیگر اہم علاقوں کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے اعلی سطحی صنعتی کھلے پن اور تعاون کو گہرا کرنا شامل ہیں ۔
مجموعی طور پر، اعلی درجے کی جدت طرازی کے لیے بیجنگ کی حمایت، صنعتی اپ گریڈیشن پر ہیبی کی توجہ، اور تیانجن کی مالیاتی اور شپنگ کی اہمیت کی خواہشات فارن ٹریڈ کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں اور چین کی ترقی اور ترقی میں حصہ لینے کے خواہاں سرمایہ کاروں کے لیے ممکنہ مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ایک دہائی پر مشتمل اس خطے کا یہ سفر اب تک اپنے اہداف کے حصول میں کئی رکاوٹیں عبور کر چکا ہے اور آنے والے وقت کے لیے نئی حکمت عملیوں کے ساتھ نئے اہداف مقرر کرتے ہوئے سفر کی اگلی منازل طے کرنے کے حوالے سے پر اعتماد ہے۔