” برکس میں نئے ممالک کی شمولیت ،”گلوبل سولائزیشن کی عملی تفسیر۔ | تحریر : سارا افضل، بیجنگ
برکس دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم ہے جس میں چین ، روس ، برازیل ، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں ۔ یہ ممالک آزادانہ طور پر اپنے ترقیاتی راستوں کا انتخاب کرتے ہوئے دنیا کے ترقیاتی عمل پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ عالمی آبادی کا چالیس فی صد ان ممالک میں آباد ہے اور عالمی جی ڈی پی میں ان کے حصے کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان ممالک کی تیز رفتار ترقی اور اس کے لیے ان کی حکمت عملی کے باعث متعدد ممالک برکس میں شمولیت کے خواہاں ہیں اور اپنی درخواستیں دےچکے ہیں ۔ حالیہ اجلاس میں برکس گروپ کے لیڈران نے گروپ میں توسیع کو مد نظر رکھتے ہوئے شمولیت کے اصول و ضوابط اور معیار پر متفق ہونے کے بعد ارجنٹینا، مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو برکس کا رکن بننے کی دعوت دی ۔ واضح رہے کہ یہ ۲۰۱۰ میں جنوبی افریقہ کے برکس کا ۵واں رکن بننے کے بعد سے گروپ میں پہلی توسیع ہے ۔ ان ممالک کی رکنیت یکم جنوری ۲۰۲۴سے فعال کر دی جائے گی ۔
برکس کے اب تک ترقیاتی عمل کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی صورتٰ حال میں آنے والے تمام تر اتار چڑحاو کے باوجود برکس ارکان نے نے کھلے پن، شراکت داری اور تعاون کے ساتھ ایک دوسرے کی ترقی میں مدد اور برکس تعاون کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ برکس ممالک نے دنیا کی دیگر ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کی آواز اور اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے اور ان کے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ اس حوالے سے چینی صدر کے خطاب کا یہ جملہ بے حد اہم ہے کہ ” کہ ترقی کا حق صرف چند ممالک کے لیے مخصوص نہیں بلکہ یہ تمام ممالک کا ناقابل تنسیخ حق ہے۔ حالیہ اجلاس سے خطاب میں بھی انہوں نے اسی بات کی نشاندہی کی کہ برکس ممالک آزادی اور خودمختاری کے ساتھ دوسروں کی ترقی کے حق کی وکالت کرتے ہیں ، اصولوں کا سودا نہیں کرتے، بیرونی دباؤ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے یا دوسروں کی جاگیر نہیں بنتے ہیں، تمام رکن ممالک کے درمیان وسیع اتفاق رائے ہے اور ان کے مشترکہ اہداف ہیں۔شی جن پھنگ نے برکس ممالک کو اپنی ماضی کی کامیابیوں کو آگے بڑھانے اور برکس تعاون کے نئے مستقبل کے لیے نئے دروازے کھولنے کے سلسلے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ برکس ممالک کو ہمیشہ اتحاد کے ذریعے خود کو مضبوط بنانے، تعاون بڑھانے اور اعلیٰ معیار کی شراکت داری قائم کرنے کے اپنے بنیادی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے برکس ممالک کے مابین کاروباری اور مالی تعاون کو گہرا کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔
برکس کے حالیہ اجلاس سے صدر شی جن پھنگ کا خطاب اس حوالے سے بے حد اہم ہے کہ انہوں نے نہ صرف عالمی سیاسی معاشی و جغرافیائی صورتٰ حال پر بات چیت کی ہے بلکہ تعلیم ، تہذیبی و ثقافتی تبادلوں کی اہمیت اور ان کے تنوع سے استفادہ کرنے نیز جدید دور میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی برق رفتار ترقی کو مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کرتے ہوئے اس سے بھرپور استفادے کے لیے تعاون کی اہمیت کو بھی اجاگرکیا ہے۔ انہوں نےنشاندہی کی کہ برکس ممالک خاص طور پر ڈیجیٹل معیشت ، سبز ترقی اور سپلائی چین جیسے شعبوں میں عملی تعاون پر توجہ مرکوز کریں اور اقتصادی ، تجارتی اور مالیاتی تبادلوں کو فروغ دیں۔ شی جن پنگ نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ برکس ممالک تعلیمی شعبے میں تعاون کو وسعت دیں، پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے برکس اتحاد کے کردار کو بڑھائیں، ڈیجیٹل تعلیم میں تعاون کا میکانزم تشکیل دیں اور ہمہ جہت تعاون کے نمونے کو فروغ دیں۔مصنوعی ذہانت (اے آئی) ترقی کا ایک نیا شعبہ ہے ، جو نہ صرف بڑے پیمانے پر ترقیاتی فوائد لا سکتا ہے ، بلکہ اس میں خطرات اور چیلنجز بھی شامل ہیں ، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا کہ برکس ممالک نے اے آئی اسٹڈی گروپ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹڈی گروپ کو اپنا مکمل کردار ادا کرنے، مصنوعی ذہانت پر تعاون کو مزید وسعت دینے اور معلومات کے تبادلے اور تکنیکی تعاون کو بڑھانے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔ برکس کے رکن ممالک کو مشترکہ طور پر خطرات سے نمٹنا چاہئے ، عالمی شراکت داری کے لئے بین الاقوامی میکانزم کے قیام کو فروغ دینا چاہئے ، اور وسیع بنیادوں پر اتفاق رائے کے ساتھ آرٹیفیشل انٹیلی جنس گورننس کے فریم ورک اور معیارات تیار کرنے چاہئیں ، تاکہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کو زیادہ محفوظ ، قابل اعتماد ، اور مساوی بنایا جاسکے۔
برکس میں شامل ہونے والے نئے ممالک پر اگر نظر ڈالیں تو تمام ممالک اپنی ایک مخصوص ثقافت اور تہذیب اور تاریخ کے حامل ہیں ۔اور برکس کے پہلے5 ارکان کی تہذیب و ثقافت کا بھی انسانی تاریخ و ترقی میں ایک بنیادی کردار رہا ہے۔ تہذیب و ثقافت کے اسی تنوع کو ترقی کے اس سفر میں ضم کرتے ہوئے آگے بڑھنا اور ہر ملک کی اقدار ، روایات اور تہذیب و ثقافت کا احترام کرنا ، شی جن پھنگ کے پیش کردہ ” گلوبل سولائزیشن ایشئیٹو” کی بنیاد ہے۔ اور نئے رکن ممالک کی برکس میں شمولیت اسی تصور کا عملی نمونہ ہے۔ شی جن پھنگ نے اپنی تقریر میں بھی کہا کہ ہمیں لوگوں کے درمیان تبادلوں کو بڑھانا چاہئے اور تہذیبوں کے مابین باہمی سیکھ کو فروغ دینا چاہئے۔برکس ممالک کو شمولیت کے جذبے کو فروغ دینے، تہذیبوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی کی وکالت کرنے اور تمام ممالک کے احترام کو آزادانہ طور پر اپنی جدید یت کے راستوں کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔برکس ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ روایتی ثقافتوں کے تبادلوں کو مضبوط بنائیں اور عمدہ روایتی ثقافتوں کی تجدید کو فروغ دیں۔
بلاشبہ برکس محض ، معیشت اور سیاسی و جغرافیائی معاملات حل کرنے کا فورم نہیں بلکہ حالیہ فورم کے بعد یہ تعلیم ، تہذیب و ثقافت اور تمام ممالک کے مشترکہ مستقبل کے لیے روابط اور تبادلوں کا پلیٹ فارم بن کر ابھرا ہے