چین امریکہ تعلقات کا نیا باب۔| تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

اس وقت عالمی سطح پر چینی صدر شی جن پھنگ اور اُن کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ہونے والی ملاقات کا نمایاں چرچا ہے۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب دونوں رہنماؤں کے درمیان دوبارہ روابط کا آغاز ہو چکا تھا، جن میں تین مرتبہ ٹیلیفونک بات چیت اور متعدد خطوط کا تبادلہ شامل ہے، جو ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ہوئے۔

 چین اور امریکہ کے تعلقات کو دنیا کے سب سے اہم دوطرفہ تعلقات میں شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ دونوں ممالک مجموعی طور پر دنیا کی 40 فیصد جی ڈی پی کے حامل ہیں۔ امریکہ۔چین بزنس کونسل کے جولائی میں جاری کیے گئے سالانہ سروے کے مطابق، چین میں کاروبار کرنے والی 80 فیصد سے زائد امریکی کمپنیاں 2024 میں منافع بخش رہیں، اور انہوں نے چین میں طویل المدتی مواقع کے حصول کی خواہش ظاہر کی۔

 شی جن پھنگ نے اس ملاقات کے موقع پر کہا کہ چین اور امریکہ، بطور بڑی طاقتیں، عالمی ذمہ داریوں کو مشترکہ طور پر نبھا سکتے ہیں اور نہ صرف اپنے ممالک بلکہ پوری دنیا کی بھلائی کے لیے مزید مثبت، عملی اور اہم اقدامات کر سکتے ہیں۔انہوں نے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کہی۔ صدر شی 32ویں اپیک اقتصادی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت اور جنوبی کوریا کے سرکاری دورے پر وہاں پہنچے تھے۔

صدر شی نے کہا کہ حال ہی میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں چین اور امریکہ کے اقتصادی و تجارتی وفود کے درمیان ہونے والی مشاورت میں متعدد مسائل پر اتفاق رائے ہوا ہے، جو اس ملاقات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ “مکالمہ تصادم سے بہتر ہے۔”چین اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ مختلف سطحوں اور ذرائع سے مسلسل رابطے میں رہیں تاکہ باہمی فہم کو فروغ ملے۔

دونوں صدور نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کے درمیان روابط باقاعدگی سے جاری رہیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ آئندہ سال کے اوائل میں چین کا دورہ کرنے کے منتظر ہیں، اور انہوں نے صدر شی کو بھی امریکہ کے دورے کی دعوت دی۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں چین اور امریکہ کے درمیان اشیاء کی تجارت کا حجم 688.28 ارب ڈالر تک پہنچا، جو کہ 1979 میں سفارتی تعلقات کے قیام کے وقت کے مقابلے میں 275 گنا زیادہ ہے۔ چین کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں امریکہ خدمات کے شعبے میں چین کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار رہا، جبکہ امریکی اعداد و شمار نے چین کو امریکہ کی خدمات کے لیے پانچواں سب سے بڑا برآمدی منڈی قرار دیا۔

یہی وجہ ہے کہ صدر شی نے کہا کہ چین۔امریکہ تجارتی تعلقات کو تعلقات کی بنیاد اور قوتِ محرکہ بننا چاہیے، نہ کہ رکاوٹ یا کشیدگی کا ذریعہ۔انہوں نے زور دیا کہ”دونوں فریقوں کو وسعتِ نظری سے کام لینا چاہیے اور طویل المدتی باہمی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں باہمی انتقام کے منفی چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔”

صدر شی نے دونوں ممالک کے اقتصادی و تجارتی وفود پر زور دیا کہ وہ برابری، باہمی احترام اور باہمی مفاد کے جذبے سے مذاکرات جاری رکھیں، مسائل کی فہرست کو کم کریں اور تعاون کی فہرست کو بڑھائیں۔

چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این کے حالیہ سروے کے مطابق، 87 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ چین۔امریکہ اقتصادی و تجارتی تعلقات بنیادی طور پر باہمی فائدہ مند ہیں، جبکہ 84.4 فیصد کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی اقتصادی تعاون نہ صرف دونوں معیشتوں کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ عالمی صنعتی و ترسیلی نظام کے استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

صدر شی نے اس ملاقات میں زور دیا کہ چین کی ترقی اور خوشحالی، امریکی صدر ٹرمپ کے “امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے” کے وژن کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چین اور امریکہ مکمل طور پر ایک دوسرے کی کامیابی میں معاون بن سکتے ہیں اور مشترکہ خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں۔

شکاگو کونسل کے ایک تازہ سروے کے مطابق، 53 فیصد امریکی اب اس بات کے حامی ہیں کہ امریکہ کو چین کے ساتھ دوستانہ تعاون اور روابط کو فروغ دینا چاہیے، جبکہ 2024 میں یہ شرح 40 فیصد تھی۔

صدر شی نے یہ بھی واضح کیا کہ “چین اور امریکہ کو شراکت دار اور دوست ہونا چاہیے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے اور موجودہ حقیقت کا تقاضا بھی۔”انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے حالات مختلف ہیں، اور یہ بات فطری ہے کہ وہ ہر معاملے میں ہم آہنگ نہ ہوں۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان وقتاً فوقتاً اختلافات پیدا ہونا معمول کی بات ہے۔

صدر شی نے کہا کہ موجودہ عالمی چیلنجز کے باوجود، دونوں صدور کو چاہیے کہ وہ درست سمت میں رہنمائی کریں، پیچیدہ حالات میں بہتر راستہ نکالیں، اور چین۔امریکہ تعلقات کے بڑے بحری جہاز کو مستحکم طور پر آگے بڑھائیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ “امریکہ اور چین کے تعلقات ہمیشہ شاندار رہے ہیں، اور یہ مزید بہتر ہوں گے۔ ہم دونوں ممالک کو مزید ترقی دیں گے۔” انہوں نے مزید کہا کہ”چین امریکہ کا سب سے بڑا شراکت دار ہے۔ ہم مل کر دنیا کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں، اور کئی سالوں تک کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

SAK

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link