ترکستان کی سیاہ رات۔ | تحریر و تبصرہ : فلک ناز نور
مشہور مصری ادیب اور شاعر نجیب الکلانی (1931-95) کو ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے عربی ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔وہ نجیب محفوظ، ، احمد امین اور طحہ حسین جیسے مشہور عرب مصنفین کی صف کے رائٹر ہیںَ۔ شاعری ، نثر اور ادب اطفال کی ان کی کئی درجن کتب شائع ہو چکی ہیں ان کے ناولوں کا اہم موضوع نوآبادیاتی دور میں امت مسلمہ کے مصائب اور مختلف اسلامی ممالک میں رونما ہونے والے اہم تاریخی واقعات ہیں۔ وہ عرب دنیا میں ادب برائے زندگی کے نظریے کے سرخیل ہیں۔ نجیب الکلانی کو عرب دنیا میں ایک عظیم مصنف کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے واضح طور پر ادبی تنقید پر گہرا اثر ڈالا اور اپنی تحریروں میں نوآبادیات کے جبر یا اپنے ہی ممالک کی آمرانہ حکومتوں کے تحت لوگوں کے مسائل پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ ” ترکستان کی سیاہ رات ” ان کا ایک مقبول ناول ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے کیا ہے۔
” ترکستان کی سیاہ رات ” وسطی ایشیا میں واقع ترکستان کے مسلمانوں کی داستان شجاعت ہے جو بیک وقت روسیوں اور چینیوں کے ظالمانہ تسلط کا شکا ر ہوئے۔ مشرقی اور مغربی ترکستان وہ علاقے ہیں جو تاریخ میں روس اور چین کے قبضے کا شکار ہوئے ۔ کیمونزم کی سرخ آندھی مسلمانوں کے ایمان اور قومی اور ملی تشخص دونوں پر برق بن کر گری۔
ترکستان کے شہر قومول پر چینیوں کی یلغار سے مسلم آبادی پر جو قیامت ٹوٹی اس کا تذکرہ دردناک ہے ۔اس ناول میں امیر کی مسلم بیٹی کی غیر مسلم فاتح سے شادی کی تجویز پر بیٹی اور والد کے مابین ہونے والی گفتگو قاری کو اشک بار کرتی ہے ۔بیٹیاں اور بہنیں ہمیشہ غیرت مند مسلمانوں کی آبرو رہی ہیں مگر جب تاریخ میں اس طرح کے سنٓگ دل مرحلے آتے ہیں تو غیور حریت پسندوں کے لیے اور ان کی پاکیزہ مسلم بیٹیوں کےلیے یہ وقت بڑی آزمائش کا ہوتا ہے۔
تاریخی ناولوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ کرداروں کے ساتھ تاریخ سفر کرتی ہے ۔مگر اس ناول میں خشک تاریخٰی واقعات ہی نہیں ہیں۔ کردار جاندار اور تجسس ، تحیر سے بھرپور ہیںَ یہ ناول انیس سو تیس کی دہائی اور پچاس کی دہائی درمیان ترکستان اور گرد و نواح کے خطوں کے ان مشکل حالات کو اجاگر کرتا ہے جو مسلمانوں کو چینی اور روسی سامراج کے ملحدانہ افکار کے خلاف علم بغاوت کرنے کی وجہ سے سہنے پڑے۔
ناول کی زبان بہت روا ں اور دلچسپ ہے ۔ کہیں کہیں شاعرانہ نثر کا گماں ہوتا ہے۔ بہت سے واقعات پڑھتے ہوئے کسی تاریخی فلم کا گمان ہوتا ہے ۔ناول کے ہیروز اور دیگر کرداروں کی زندگی میں بہت سے دلچسپ نشیب و فراز آتے ہیں۔ زندانوں میں قید مسلم حریت پسندوں کو معجزانہ انداز میں آزادی بھی ملتی ہے اور بعد ازاں کئی اور مشکل ادوار بھی آتے ہیں۔ خاص کر کاشغر ، اور مجی، قومول کے پہاڑوں پر شجاعت اور مسلم غیرت کی داستان ا انھوں نے پنے لہو سے لکھی ۔
قاری جب موجودہ حالات میں، خاص کر مڈل ایسٹ میں فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے تناظر میں اس ناول کا موازنہ کرتا ہے تو خوجہ نیاز ، جنرال شریف جیسے جری کرداروں میں آج کے فلسطینی حریت پسندوں کا عکس ملتا ہے ،
ناول میں ایک موڑ پر ٹارچر سیل کے بعد خوجہ نیاز اور تفتیش کاروں کی مابین ہونے والی بات چیت ایمان افروز ہے۔اس طرح کے بے شمار مکالمے قاری کو عزم اورحوصلے کا پیغام دیتے ہیںَ۔روسی اور چین کے کفریہ نظام اپنی تمام تر سفاکیت کے باجود مسلمانوں کے دلوں سے ایمان اور عقیدے کی شمعیں گل نہ کر سکا ۔چین کی مسلم اقلیت آبادی ایغور بھی اسی طرح کے لوگوں پر مشتمل ہے جنھیں اپنے عقیدے کی حفاظت اور ایمان کی بقا کے لیے بے شمار قربانی دینی پڑی ہے اور آج بھی دے رہے ہیں۔ ناول میں بہت سے مقامات پر مکالمے اور جملے قابل داد ہیں۔ اور قاری کو موٹی ویشن دیتے ہیں۔معرکہ حق و باطل کی سچائیوں کی بہترین تصویر کشی کرتے ہیں۔
جیسے ۔
“دنیا میں کہیں بھی حق کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں لیکن خواہش نفسانی کے پجاری باطل میں بھی حق تراش دیتے ہیں اور کبھی حق کو باطل کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں۔ “
صفحہ نمبر 23
ناول میں متعدد مقامات پر کہساروں کا ایمان افروز اور دلفریب تذکرہ ملتا ہے۔ ترکستان کے مسلم حریت پسندوں کو کہساروں کے ساتھ خاص انسیت ہے۔
جیسے کہ مکالمہ :
“۔۔۔۔۔۔۔۔منصور ۔۔ کل ہم واپس جائیں گے پہاڑوں پر ۔۔۔”
میں نے قومول کی حسرت زدہ رات کو آنکھ بھر کر دیکھا اور کہا:
” چوٹیوں پر رات کتنی شفاف ہوتی ہے ، تم مردوں کے ترانے سنو گے تو خوش ہو جاؤ گے منصور،
اور
ستاروں پر نگاہ ڈالو گے ۔۔۔۔ تو ۔۔۔ایک ستارہ ( نجمہ) تمھار منتظر ہو گا۔۔۔۔بلکہ تمھیں لاکھوں ستارے مسکراتے نظر آہیں گے “۔
“پہاڑوں کے کیا کہنے منصور۔۔۔”
ایک اور جگہ پر کہساروں کی محبت کا تزکرہ کچھ یوں ہے۔:
” چوٹیوں پر پہنچ کر انسان آسمان سے کتنا قریب ہو جاتا ہے ، آفاق کی سچاہیوں کو دیکھتا ہے۔” پیج نمبر 102
التائی نامی چوٹی اور ترکستان کی وادیوں اور کہساروں کے دامن میں کہین عثمان باتور اور ناول کے دیگر حریت پسند کردار اپنی قوم کی آزادی کی جہد وجہد میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا ترجمہ کردہ یہ ناول اردو ادب کے ترجمے کے شعبے میں ایک نادر اضافہ ہے۔ جس پر وہ داد و تحسین کی مستحق ہیں۔ اللہ پاک سلامت رکھے۔

فلک ناز نور
