NH

اگر کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو پاکستان کشمیر کیلئے کیا ہے؟| تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷ کا دن کشمیر کی تاریخ  کا  ایک سیاہ ترین دن ہے۔  یہی وہ دن ہے کہ جس میں بھارت نے مقبوضہ  کشمیر میں اپنے فوجی دستے داخل کر کے  کشمیر کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔بھارت کا یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کے برخلاف تھا، اور یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات سے آج تک کشمیری نہیں نکل سکے۔ اس دن کی مناسبت سے سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم  نے  ۲۷ اکتوبر کو  اس سال بھی قم المقدس ایران میں  یوم یکجہتی کشمیر منایا۔  اس موقع پر موسسہ باقرالعلوم کے کانفرنس ہال میں ایک نشست کا اہتمام بھی کیا گیا۔مقررین نے نشست سے خطاب کرتے ہوئے  کہا کہ یوں تو اس وقت پوری مسلم امہ مقبوضہ بنی ہوئی لیکن  مسلمانوں کی اس طرف توجہ نہیں جبکہ کشمیری اپنے آپ کو مقبوضہ کہتے ہیں  چونکہ ان کی توجہ اپنی خودی اور آزادی کی طرف ہے۔مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ  اس وقت کشمیر میں نوجوانوں کی بے راہ روی کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں ثقافتی یلغار ، بے حیائ ، منشیات کی لت میں مبتلا کرنے اور فکری بے راہ روی شامل ہیں ۔ نشست کے مہمانِ خصوصی  ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی صاحب نے  اپنی گفتگو میں کہا کہ اس وقت  مسئلہ فلسطین  اورمسئلہ کشمیر  ساری دنیا کے دو اہم مسئلے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کیلئے سیرت حضرت زینب ؑ بہترین اُسوہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ  صبر و تدبیر کے ساتھ ظالم وں کا ہر میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے ۔ انہوں  نے اپنی گفتگو میں کہا کہ  ان شااللہ وہ دن دور نہیں کہ ظالم منہ کی کھائے گا اور  کشمیر آزاد ہو کر رہے گا ۔ نشست سے متعدد مقررین نے خطاب کیا۔  

۲۷ اکتوبر کے حوالے سے راقم الحروف ایک اہم نکتے کو اجاگر کرنے کا خواہاں ہے ۔ وہ نکتہ ہے” کشمیر کیلئے پاکستان کی اہمیّت “۔ جب ۲۷ اکتوبر کو بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی، تو یہ ایک غیر قانونی قبضہ تھا، جس کا کوئی  قانونی و اخلاقی جواز نہیں تھا۔ بھارت نے کشمیری عوام کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے فوجی طاقت کا استعمال کیا، جس سے کشمیر کی آئینی حیثیت متاثر ہوئی اور کشمیریوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا۔ دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے سفارتی، دفاعی، اور اخلاقی سطح پر غیر معمولی جدوجہد کی ہے ۔ پاکستان نے اس مسئلے کو کشمیریوں کا مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے  اپنے قومی مفاد اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کے طور پر اہمیت دیتے ہوئے  اس نے کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے لیے مختلف سطحوں پر موثر اقدامات کیے ہیں۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر کشمیر کے مسئلے کو مسلسل اجاگر کیا  اور کشمیری عوام کے حقِ آزادی کی حمایت میں عالمی قراردادوں کا ہر فورم پر حوالہ دیا اور بھارت کے غاصبانہ اقدامات کی مذمت کی۔ اسی طرح، پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے کو اپنے آئین میں اہمیت دی ہے، اور اس بات کا عہد کیا ہے کہ  پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔

آج ایک طرف بھارت ہے کہ جس نے ۵ اگست ۲۰۱۹ کو اپنے آئین کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵ اے کو منسوخ کر کے کشمیر کو ایک خاص آئینی حیثیت  اور خصوصی حقوق سے محروم کیا ۔ اس اقدام کے ذریعے بھارت نے کشمیر کے آئینی تشخص کو غیر قانونی طور پر تبدیل کر دیا، جس سے کشمیر کی خودمختاری اور کشمیری عوام کے حقوق کو زبردست نقصان پہنچا۔ بھارت نے اس کے بعد کشمیر میں بڑی تعداد میں مزید  فوجی دستے تعینات کیے، انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیا، سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا اور کشمیریوں کی آزادی اظہار کی گنجائش کو  بالکل ختم کر دیا۔

اب دوسری طرف پاکستان  ہے کہ جس نے  اپنی تاریخ میں ہمیشہ کشمیری عوام کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، خاص طور پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ان کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے کشمیری پناہ گزینوں کے لیے خصوصی کیمپوں کا قیام کیا، جہاں انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے کشمیریوں کو آبی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے بھی عالمی سطح پر حمایت فراہم کی ہے، تاکہ بھارت کے کشمیر پر مکمل تسلط سے پاکستان کے آبی حقوق متاثر نہ ہوں۔ پاکستان کی حکومت نے کشمیری عوام کے لیے ہمیشہ ایک مضبوط سفارتی اور قانونی پوزیشن اختیار کی ہے، اور اس کے قائدین نے کشمیریوں کے حقوق کے دفاع میں بین الاقوامی سطح پر سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔

پاکستان کی فوج نے بھی کشمیر کے دفاع میں اپنی ذمہ داری کو اہم سمجھا ہے اور سرحدوں پر اپنی موجودگی کو مضبوط رکھا ہے تاکہ کشمیری عوام بھارتی جارحیت سے محفوظ رہیں۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا موقف ہمیشہ صاف اور واضح رہا ہے کہ کشمیر کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے، اور پاکستان نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے مسلسل سفارتی، سیاسی اور قانونی کوششیں کی ہیں۔ پاکستان کا کشمیر کے لیے عزم نہ صرف اس کے قومی مفاد سے جڑا ہوا ہے بلکہ یہ ایک اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری بھی ہے، جس کا اظہار پاکستان کے عوام کی جانب سے کشمیر کے ساتھ مسلسل یکجہتی کے مظاہروں میں ہوتا ہے۔

یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو کبھی بھی صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں سمجھا بلکہ اس نے ہمیشہ عالمی سطح پر کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو اجاگر کیا ہے اور عالمی برادری سے بھارت کے ظلم و جبر کی مذمت کرنے کی درخواست کی ہے۔ پاکستان کا کشمیر کے لیے موقف ہمیشہ ایک مضبوط قانونی اور اخلاقی بنیاد پر استوار رہا ہے، اور اس نے کشمیریوں کے حقوق کے لیے اپنی تمام کوششوں کو مسلسل جاری رکھا ہے۔

 ستائیس اکتوبر کو یہ سچائی بھی بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت  بھارت نے کشمیر میں اپنے تسلط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے وہاں کے مقامی قانون ساز اداروں کو تحلیل کر رکھا ہے  اور ریاستی اسمبلی کی حیثیت کو ختم کر دیا ہے، جس سے کشمیر کے عوام کی سیاسی نمائندگی پر شدید منفی  اثرات مرتب ہوئے ہیں۔مقبوضہ  کشمیر کے علاقوں میں بھارتی شہریت کے قوانین کے ذریعے غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کی کوششیں کی گئیں  تاکہ کشمیر کی آبادیاتی حیثیت کو تبدیل کیا جا سکے جو ایک اور غیر آئینی اقدام ہے۔

یہ مانا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تاہم ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ  کشمیر کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت، تمدّن، آزادی و خود مختاری کی تمنّا اور  جغرافیائی حیثیت میں سے جو کچھ بھی محفوظ ہے وہ پاکستان کی وجہ سے ہی محفوظ ہے ورنہ بھارت تو کب کا سب کچھ ہضم کر چکا ہوتا۔ کشمیر  اور پاکستان  کے درمیان ایک  ایسا مقدس رشتہ ہے جو دین  کے دھاگے سے بندھا ہوا ہے، جہاں زمین، آسمان اور آزادی کا خواب ایک ہی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ کشمیر کی تاریخ، اس کی تہذیب، اس کا تمدن، اور اس کی آزادی کی آرزو ۔۔۔ یہ سب پاکستان کی بدولت ہی زندہ و تابندہ ہے۔ کشمیر کے درخت، اس کے پہاڑ، اس کے دریا، یہ سب پاکستان کے وجود سے جڑے ہیں، جیسے روح جسم سے اور  جیسے دل دھڑکن سے۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link