چین کی آئندہ پانچ سالہ ترقیاتی حکمتِ عملی کی تشکیل۔| تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی بیسویں مرکزی کمیٹی کے چوتھے کل رکنی اجلاس کے بعد چین کی آئندہ پانچ برسوں کی ترقیاتی حکمتِ عملی واضح ہونا شروع ہو گئی ہے۔اس اجلاس میں چار روزہ غور و خوض کے بعد اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے پندرہویں پانچ سالہ منصوبہ (2026 تا 2030) کی تیاری سے متعلق سفارشات کو منظور کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، اس مدت کے دوران چین ایک جدید صنعتی نظام قائم کرے گا، حقیقی معیشت کی بنیادوں کو مزید مضبوط بنائے گا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خودانحصاری اور خوداعتمادی حاصل کرے گا، اور اعلیٰ معیار کی پیداوار کی نئی قوتوں کو فروغ دے گا۔چین مستقبل کی صنعتوں کے لیے منصوبہ بندی کرے گا، جن میں کوانٹم ٹیکنالوجی، حیاتیاتی مینوفیکچرنگ، ہائیڈروجن اور نیوکلیئر فیوژن توانائی، برین و کمپیوٹر انٹرفیس، مجسم مصنوعی ذہانت اور چھٹی نسل کی موبائل کمیونیکیشنز شامل ہیں۔ ان ابھرتی ہوئی صنعتوں سے متوقع ہے کہ وہ چین کے لیے نئی ترقیاتی محرک قوتیں بنیں گی، اور آئندہ دس برسوں میں ان کی مجموعی قدر چین کی موجودہ ہائی ٹیک صنعت کے برابر ہو جائے گی۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ چین ایک مضبوط داخلی منڈی تشکیل دے گا، اعلیٰ معیار کی سوشلسٹ مارکیٹ معیشت کے قیام کو تیز کرے گا، اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو فروغ دے گا، اور باہمی مفاد پر مبنی تعاون کے نئے افق کھولے گا۔
چین کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ برسوں میں دنیا کے لیے مزید کھلے پن کی پالیسی اپنائے گا، تجارت میں جدت و تنوع کو فروغ دے گا، دو طرفہ سرمایہ کاری کے مواقع میں وسعت پیدا کرے گا، اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت اعلیٰ معیار کے تعاون کو آگے بڑھائے گا۔چین نے یہ عزم بھی دہرایا ہے کہ سرمایہ کاری یا کھلے پن کے اقدامات میں ہمیشہ کی طرح زیرو سم پالیسیوں سے گریز کیا جائے گا۔ چین کا مقصد دوسروں کے نقصان پر اپنا فائدہ نہیں بلکہ باہمی مفاد اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینا ہے۔
پندرہویں پانچ سالہ منصوبے کے اہم اہداف میں جامع اصلاحات میں نئی پیش رفت، سماجی سطح پر ثقافتی و اخلاقی ترقی اور عوامی معیارِ زندگی میں مزید بہتری شامل ہیں۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چین فی الوقت ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں اسٹریٹجک مواقع اور چیلنجز ساتھ ساتھ موجود ہیں، جبکہ بین الاقوامی سطح پر غیر یقینی عوامل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ چین ادارہ جاتی سطح پر اپنے کھلے پن کو وسعت دیتا رہے گا، کثیرالجہتی تجارتی نظام کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے گا، اور بین الاقوامی معاشی روابط کو مزید مضبوط بنائے گا۔ چین اصلاحات اور ترقی کو کھلے پن کے ذریعے آگے بڑھائے گا اور دنیا کے ساتھ مشترکہ ترقی کے مواقع بانٹے گا۔
تا حال ، چین پہلے ہی انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک اور ان افریقی ممالک کو، جن کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات ہیں، ان کی تمام مصنوعات پر صفر درآمدی محصولات کی سہولت فراہم کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر تمام پابندیاں ختم کر دی ہیں، ٹیلی کمیونیکیشن، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے رسائی میں وسعت دی ہے، اور 22 پائلٹ فری ٹریڈ زونز قائم کیے ہیں۔
عالمی مبصرین کے مطابق، دنیا میں پائے جانے والے سیاسی و معاشی اتار چڑھاؤ کے مقابلے میں چین کا پانچ سالہ منصوبہ بندی کا نظام پالیسی کے تسلسل اور استحکام کی علامت ہے۔اسی پالیسی سازی کی روشنی میں چین عالمی ترقی اور تجارت میں سب سے بڑا محرک بنا رہے گا۔چین کے معاشی حجم اور عالمی ویلیو چین میں اُس کے بڑھتے ہوئے کردار کو دیکھتے ہوئے،یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے مزید کھلا پن نہ صرف چین کی اعلیٰ معیار کی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ دنیا کے لیے بھی انتہائی فائدہ مند ثابت ہو گا۔

