صحرا کی روک تھام اور کنٹرول کا سائنسی ماڈل۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

ابھی حال ہی میں شمالی چین کے اندرون منگولیا خود اختیار علاقے کے شہر اورڈوس میں نواں کوبوکی انٹرنیشنل ڈیزرٹ فورم منعقد ہوا، جس کا مقصد سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے صحرا کی روک تھام اور کنٹرول پر بین الاقوامی تعاون کو گہرا کرنا ہے۔”انسانیت کے مفاد میں ٹیکنالوجی سے بااختیار صحرائی کنٹرول” کے موضوع پر منعقد ہونے والے اس فورم  میں اندرون و بیرون ملک سے تقریباً 300 شرکاء نے شرکت کی ہے جن میں غیر ملکی معززین، اقوام متحدہ کی تنظیموں کے نمائندے، صحرا سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک کے سفارت کار، سرکاری حکام، ماہرین، اسکالرز اور کاروباری افراد شامل  رہے۔

ذیلی فورمز کے دوران صحرائی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور وسائل کے پائیدار استعمال، ریت کے طوفان کی روک تھام اور ٹیکنالوجی سے بااختیار صحرائی کنٹرول، اور زمین کی بحالی کو فروغ دینے کے لئے علم اور ٹیکنالوجی کے استعمال جیسے موضوعات پر گہرائی سے تبادلہ خیال کیا گیا۔اس فورم کے دوران ، چین کی قومی جنگلات اور سبزہ زاروں کی انتظامیہ اور عرب لیگ کے سیکرٹریٹ نے خشک سالی ، صحرا زدگی اور زمین کے انحطاط کے لئے چین عرب بین الاقوامی تحقیقی مرکز کے قیام سے متعلق مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے  اور  تعاون کے متعدد منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ 2007 ء میں اپنے قیام کے بعد سے ، کوبوکی انٹرنیشنل ڈیزرٹ فورم اقوام کے لئے صحرائیت کا مقابلہ کرنے اور پائیدار ترقی کے لئے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے پر عمل درآمد میں پیش رفت کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہا ہے۔اس عرصے کے دوران یہ فورم تجربات کے تبادلے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا ہے۔ اب تک اس فورم میں تقریباً 100 ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے 3,000 سے زائد شرکاء شریک ہو چکے ہیں۔

حقائق کے تناظر میں صحرا زدگی کے شدید چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے ، چینی حکومت نے گزشتہ چند دہائیوں میں مسلسل ٹیکنالوجی پر مبنی سبز ترقی پر زور دیا ہے اور صحرائیت پر قابو پانے کے مؤثر ماڈل تلاش کیے ہیں ، جن میں کئی اقدامات کو اندرونی منگولیا کے صحرا کوبوکی میں نافذ کیا گیا ہے۔اس کے نتیجے میں، صحرائیت سے متاثرہ علاقے میں بتدریج کمی آئی ہے اور ملک میں صحرائیت کے پھیلاؤ کو مؤثر طریقے سے روک دیا گیا ہے. اس کی وجہ سے مویشی پروری، ایکو ٹورازم، قابل تجدید توانائی، اور مختلف دیگر ماحولیاتی صنعتوں کی ترقی بھی ہوئی ہے۔

چین عملاً اس فلسفے پر عمل پیرا ہے کہ “صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں”، اسی تصور کی روشنی میں ملک کی جانب سے پہاڑوں، دریاؤں، جنگلات، کھیتوں، جھیلوں، گھاس کے میدانوں اور ریگستانوں کے مجموعی تحفظ اور منظم گورننس کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، اور تمام شعبوں میں ماحولیاتی تحفظ کو مضبوط کیا جا رہا ہے.نتیجتاً ، ملک نے چینی خصوصیات کی حامل روک تھام اور کنٹرول کے تحت صحرا زدگی اور ریت کا مقابلہ کرنے میں قابل ذکر پیشرفت دکھائی ہے ۔اس دوران چین نے ایسی سبز دیوار تعمیر کی ہے جس نے ریت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران صرف ، اندرونی منگولیا میں ہی 8.1 ملین ہیکٹر رقبے پر درخت اور 19.1 ملین ہیکٹر رقبے پر گھاس لگائی گئی ہے ، جس سے صحرائی زمین کا رقبہ مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔ چین صحرا زدگی میں متحرک تبدیلیوں کے ساتھ اپنے کنٹرول کے منصوبوں کو بہتر بنانے کے لئے ، ہر پانچ سال بعد صحرا زدگی پر ایک ملک گیر نگران سروے بھی کرتا ہے۔

اس عمل میں اگرچہ چین مرحلہ وار نتائج حاصل کر رہا ہے لیکن اب بھی طویل مدتی نقطہ نظر سے ریگستانی کنٹرول کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔چین کے نزدیک خستہ حال زمینوں پر انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کی بحالی کے لئے مزید سائنسی بنیادوں پر رہنمائی لازم ہے.یہی وجہ ہے کہ اب تک، ملک کی جانب سے شجرکاری، صحرائی کنٹرول،خشک زمینوں کی جنگلات اور سبزہ زاروں میں تبدیلی ، اور ٹی آئل کیمیلیا پودے لگانے سمیت مختلف منصوبوں پر عمل درآمد جاری ہے.چین کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ ریگستانی کنٹرول ایک طویل مدتی اور مشکل کام ہے جو پورے معاشرے کی کوششوں اور متعلقہ علاقوں میں لوگوں کی وسیع شرکت کے بغیر ناممکن ہے.یہی وجہ ہے کہ ، صوبہ حہ بے کے سائی ہان با سے لے کر صوبہ شانشی کی یویو کاؤنٹی تک، اندرون منگولیا خوداختیار علاقے میں صحرائے کوبوکی سے لے کر سنکیانگ ویغور خود اخیتار علاقے میں کی کیا تک، یہاں کے مقامی لوگوں نے گزشتہ دہائیوں میں صحرا سے لڑنے کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں۔ان لوگوں کے جذبے اور استقامت نے انہیں صحرا کا مقابلہ کرتے ہوئے غربت سے چھٹکارا دلانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے۔

SAK
شاہد افراز خان، بیجنگ

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link