NH

یکساں نصاب تعلیم یعنی کثرت میں وحدت۔ | تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

پاکستان میں جہاں  مسلمان ایک مذہبی اکثریت (شیعہ، بریلوی، دیوبندی،  اور اہلِ حدیث وغیرہ) کے طور پر  آباد ہیں وہیں  مذہبی  اقلیتوں  کے لحاظ سے عیسائی، ہندو، سکھ، احمدی، بہائی وغیرہ کی بھی  ایک قابلِ توجہ  یہاں  تعداد رہتی ہے۔ اسی طرح  اس ملک میں پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، اردو وغیرہ کے اعتبار سے لسانی تنوع  بھی موجود ہے  اور اشرافیہ سے لے کر انتہائی غریب طبقات تک معاشی تفریق بھی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ایسے متنوع معاشرے میں یکساں معیاری تعلیم سب کی ضرورت بھی ہے اور سب کا فطری و قانونی حق بھی۔ معاشرتی ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور تعلیمی مساوات کو فروغ دینے کیلئے  ملک بھر کے تمام بچوں  کو بلاتفریق مذہب و نسل  تعلیم کا یکساں معیار فراہم کرنا  ریاست کی قانونی ذمہ داری ہے۔ تعلیم کے یکساں معیار کی  فراہمی کی اہمیّت سے کسی پاکستانی کو انکار نہیں لیکن انکار کی  مختلف صورتیں تب سامنے آتی ہیں کہ  جب “یکساں” کا مطلب صرف “اکثریتی لوگوں کی رائے” لے لیا جائے  نیز جب ریاستی پالیسی میں مشاورت کے بجائے لوگوں کے عقائد تبدیل  کرنے کا رویہ جھلکے اور جب دینی مواد صرف ایک مخصوص فرقے کی تشریحات پر مبنی ہو، اسی طرح جب اقلیتوں کے لیے “متبادل” صرف کاغذ پر  توموجود ہو لیکن  عملی طور پر  کہیں دکھائی نہ دے  اور جب نجی اور سرکاری اسکولوں کے لیے تعلیمی معیارات،  تدریسی وسائل اور زبانیں مختلف ہوں۔

نجی تعلیمی اداروں نے بھی یکساں  نصاب تعلیم  کے بعض پہلووں  پر سوالات اٹھائے ہیں، خصوصاً اس کی معیاری ساخت اور تدریسی آزادی پر۔ کئی اسکولز اسے معیاری تعلیم کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں اور مکمل طور پر اپنا نصاب ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ دینی مدارس نے بھی ایس این سی  کے نفاذ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، خصوصاً دینی نصاب میں ریاستی مداخلت پر۔ اس تمام صورتحال میں طلبا، والدین، اساتذہ، تعلیمی ماہرین، علما، اقلیتیں، اور دیگر سماجی حلقے بطور اسٹیک ہولڈرز سامنے آتے ہیں، جن کی مشاورت اور شمولیت کے بغیر  یکساں نصاب کی کوئی تعلیمی پالیسی مؤثر اور پائیدار ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہ  چیلنج صرف پاکستان کو درپیش نہیں بلکہ دنیا میں کئی ایسے  ممالک ہیں جیسے کینیڈا، بھارت، جنوبی افریقہ، ملائیشیا وغیرہ  جہاں مذہبی و لسانی تنوع موجود ہے، وہاں کثرت میں وحدت  کی بنیاد پر تعلیمی پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں۔ اگر وہ ممالک ایسی تعلیمی پالیسی بنا سکتے ہیں تو  پاکستان  کیوں  ایسی تعلیمی حکمتِ عملی اپنا سکتا!؟  لہذا ضرورت  اس امر کی ہے کہ ایک مستقل اسٹیک ہولڈر فورم تشکیل دیا جائے جس میں سرکاری اداروں، نجی اسکولوں، دینی مدارس، علما، والدین، طلبا اور اقلیتوں کی نمائندگی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک آزاد مانیٹرنگ، فیڈ بیک  اور جائزہ نظام بھی قائم کیا جائے جو نصاب کے نفاذ، مواد کے توازن، اور معیار تعلیم کی نگرانی کرے۔

یہاں پر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ ہماری دانست میں پاکستان میں ایسی یکساں تعلیمی حکمتِ عملی کی راہ میں حقیقی رکاوٹ “اشرافیہ” کی طرف سے ہے۔ اشرافیہ کے نجی اسکولز  اپنے اعلیٰ معیار، عالمی نصاب، انگریزی ذریعہ تعلیم، اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایک مخصوص “تعلیمی برتری” کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ایس این سی  چونکہ ایک مساوات پسند ماڈل ہے اس لیے  اسے ناقابلِ عمل بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔ اسی طرح  اشرافیہ کے بچے زیادہ تر کیمبرج، بیکالوریٹ ، یا دیگر بین الاقوامی نصاب میں پڑھتے ہیں۔ ان اداروں کے لیے ایس این سی  کو اپنانا معیاری اور عالمی سطح کے تقاضوں سے پیچھے ہٹنا تصور کیا جاتا ہے۔ان اسکولوں کا موقف ہے کہ ایس این سی  تعلیم کے عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتا، لہٰذا اسے نافذ کرنا بچوں کے مستقبل کے مواقع اور مقابلے کی قابلیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔  ہمیں اس حقیقت کو لمس کرنا چاہیے کہ  اشرافیہ کے لیے تعلیم محض حصولِ علم نہیں بلکہ سوشل اسٹیٹس (سماجی حیثیت) کی علامت ہے۔اگر غریب و امیر ایک ہی نصاب پڑھنے لگیں، تو وہ “تعلیمی برتری = طبقاتی برتری” کا فارمولا ٹوٹنے لگے گا۔ اس خدشے  کے باعث  اشرافیہ بالواسطہ طور پر ایس این سی  کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ ایس این سی  کا مواد اکثر قومی زبان (اردو)، اسلامی اخلاقیات، اور مقامی اقدار پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ اشرافیہ کے تعلیمی ادارے مغربی طرزِ فکر، انگریزی زبان، اور سیکولر رجحانات کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ اقداری ٹکراؤ بھی  ایس این سی  کی قبولیت میں رکاوٹ بنتا ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ کے تسلّط  کو دیکھتے ہوئے  یہ کہا جاسکتا ہے کہ  اشرافیہ چونکہ پالیسی ساز اداروں، بیوروکریسی، اور نجی شعبے میں مؤثر نفوذ اور اثر و رسوخ  رکھتی ہے، اس لیے وہ ایس این سی  کے اطلاق کو تاخیر میں ڈالنے،  جزوی طور پر  رُکوانے یا تعطل میں  ڈالنے میں کسی نہ کسی طرح  کامیاب  چلی آ رہی ہے۔

یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ بہت سے تعلیمی ادارے اشرافیہ کے بڑے تعلیمی گروپس کی ملکیت ہیں، جن کی عمارتیں، استاد،  کتابیں،  اسٹیشنری، تدریسی ٹیکنالوجی، تدریسی تربیت اور امتحانی نظام ان کی کمرشل سرگرمیوں کا حصہ  ہے۔ ایس این سی  کے نفاذ سے ان کی آمدن پر ضرب پڑے گی جس کے پیشِ نظر وہ  یکساں نصاب تعلیم سے نالاں ہیں۔ معاشرے میں  وہ بڑی چابکدستی سے  ایس این سی کے  پسماندہ، دقیانوسی اور غیر معیاری  ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔اس طبقے کی رائے سازی، میڈیا تک رسائی، اور تعلیمی بیانیے پر اثر کے باعث ایس این سی  کے خلاف ہر فورم پر  ایک سافٹ مزاحمت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

مذکورہ بالا تناظر میں کہ جب  ایک طرف انواع و اقسام کے مسالک و نسلیں جدید و معیاری تعلیم کیلئے تشنہ ہیں اور  دوسری طرف تعلیمی وسائل پر  اشرافیہ کا تسط   ہے، ایسے میں یکساں نصابِ تعلیم کی اہمیّت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ چنانچہ ہم اس  اہمیّت کے پیشِ نظر  سارے پاکستانیوں کو یکساں نصابِ تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے  کیلئے کچھ تجاویز پیش کئے دیتے ہیں

۱۔ درسی مواد میں تنوع اور احترام کو قائم رکھتے ہوئے  “یکساں” کا مطلب یہ ہو کہ تعلیم کی رسائی، معیار، اور مواقع سب کے لیے برابر ہوں  ۔

۲دینی تعلیم میں “مشترکہ  اقدار ”  پر زور دیا جائے، نہ کہ فقہی، مسلکی  و  دینی  تفصیلات پر۔

۳۔ اقلیتوں کو آئینی حق کے مطابق اپنا مذہبی نصاب اختیار کرنے کی مکمل سہولیات دی جائیں۔

۴۔لسانیات کے معاملے میں پسماندہ مناطق میں مقامی و   علاقائی زبانوں کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے اور اردو و انگریزی کو تدریجاً شامل کیا جائے۔

۵۔ والدین و طلبا اور ماہرین تعلیم و پالیسی میکرز نیز  نجی و سرکاری تعلیمی  شعبے کے درمیان اعتماد اور مکالمے کو فروغ دیا جائے، صرف حکم نہ سنایا جائے۔

۶۔ایس این سی کو معیار اور تنوع کے ساتھ تیار کیا جائے تاکہ یہ بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔۷۔نجی اسکولز کو مکمل آزادی  دینے کے بجائے کچھ  تدریسی و تربیتی اختیارات دئیے جائیں اور لچک فراہم کی جائے۔

۸۔اشرافیہ کے اسکولز کو ایس این سی کے بنیادی عناصر اپنانے پر قانونی و اخلاقی دباؤ ڈالا جائے۔

۹۔ ایس این سی میں عالمی معیار، جدید سائنسی رجحانات، اور تحقیقی بنیادوں پر مبنی تعلیم کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ماہرینِ تعلیم اور  اشرافیہ کے تحفظات  بھی کم ہوں۔

۱۰۔ کسی بھی تبدیلی کو ملک گیر نافذ کرنے سے پہلے مخصوص اضلاع میں پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر نافذ کیا جائے اور اس کے نتائج کا تجزیہ ماہرین کی مدد سے کیا جائے۔ نیز ہر نئے مرحلے میں یونیورسٹی کے پروفیسرز، اسکول لیول ماہرین، اور ٹرینرز کو شامل کیا جائے۔ ایک “نصاب مشاورتی کونسل” تشکیل دی جائے جس میں تمام متعلقہ ماہرین کی نمائندگی ہو۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link