پنجاب کے دامن میں سیلاب کی آزمائش اور بروقت حکومتی اقدامات۔ |تحریر سیدہ گیلانی
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ریاستیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب ان کے ستون عوامی خدمت، دانشمند قیادت اور قومی اداروں کی قربانی پر قائم ہوں۔ ایک قوم تب ہی سر بلند رہتی ہے جب اس کے رہنما عوام کی فلاح کو اپنا مشن اور قومی ادارے ملک کے دفاع اور خدمت کو اپنی عبادت سمجھیں۔
ایک مثالی حکومت وہ ہے جو اپنے عوام کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھے۔ تعلیم کو روشنی، صحت کو زندگی، انصاف کو بنیاد اور روزگار کو عزتِ نفس جانے۔ خواتین کی عزت، نوجوانوں کی توانائی اور محروم طبقات کی ضرورتیں جب ریاستی پالیسی کا حصہ بنیں تو حکومت کو دلوں میں جگہ ملتی ہے۔
یہی خدمت انسانیت کو مقصدِ حیات بناتی ہے اور ایسے میں خواجہ میر درد کایہ شعر بے ساختہ لبوں پر آجاتاہے کہ،
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
وگرنہ عبادت کے لیے کم نہ تھے کرو بیاں
کسی بھی ریاست کی بقا صرف کاغذی وعدوں یا معشیتی اعداد و شمار پر قائم نہیں رہتی۔ اس کی اصل ضمانت وہ ادارے ہیں جو دن رات سرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں، مشکلات میں قوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر عوام کے سکون کو یقینی بناتے ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جس سے ایک ملک کے اندر تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور عوام پُراعتماد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔
یہ ادارے اس بات کے مظہر ہیں کہ پاکستان صرف نقشے پر ایک خطہ نہیں بلکہ قربانی، خدمت اور ایثار سے جڑی ہوئی ایک زندہ حقیقت ہے۔
آج کا دور عالمی تعلقات کا ہے۔ وہی ملک کامیاب ہے جس کی قیادت دنیا کے فورمز پر اپنی عوام کی امنگوں کو عالمی تقاضوں کے ساتھ جوڑ کر پیش کرے۔ ماحولیاتی تبدیلی ہو یا انسانی حقوق، علاقائی امن ہو یا مذہبی تعصب،ہر سطح پر وہی آواز سنی جاتی ہے جو اعتماد، دلیل اور بصیرت کے ساتھ بلند ہو۔
پاکستان کو اس وقت اندرونی استحکام اور بیرونی وقار دونوں کی ضرورت ہے۔ داخلی طور پر عوامی فلاح اور انصاف کی فراہمی، بیرونی طور پر دانشمند سفارت کاری اور عالمی تعاون،یہ دونوں پہلو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ قومی قیادت اور ادارے جب ہم آہنگ ہو جائیں تو قوم نہ صرف اپنے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے بلکہ دنیا میں باوقار مقام بھی حاصل کرتی ہے۔علامہ اقبال نے کہا تھا۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
مثالی قیادت وہی ہے جو عوام کے دکھ درد میں شریک ہو، اداروں کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھے، اور دنیا کے سامنے اپنے وطن کی باوقار نمائندگی کرے۔ یہی امتزاج پاکستان کو وہ منزل دے سکتا ہے جہاں ہر شہری سکون سے جیے اور دنیا احترام سے دیکھے۔ یہی اصل میں ایک روشن اور مثالی ریاست کا خواب ہے۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ پنجاب کی زمین ہمیشہ سے زرخیز، شاداب اور محنت کش کسانوں کی پہچان رہی ہے۔ لیکن رواں ہفتے یہی زمین پانی کے شدید بہاؤ کے سامنے بے بس دکھائی دی۔ موسلا دھار بارشوں اور سرحد پار سے ڈیموں کے دروازے کھلنے کے بعد دریائے چناب، راوی اور ستلج میں طغیانی نے کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گاؤں کے گاؤں پانی میں ڈوب گئے، کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں، اور ہزاروں خاندان اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر خیمہ بستیوں میں جا پہنچے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیلاب کے نقصانات کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ ایک کسان جو اپنے کھیت میں مہینوں پسینہ بہاتا ہے، وہ چند گھنٹوں میں سب کچھ پانی کی نذر ہوتادیکھ لیتاہے۔ گھروں کی چھتیں گرنے اور مویشیوں کے بہہ جانے سے صرف معاشی نہیں بلکہ جذباتی زخم بھی گہرے ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی آنکھوں میں خوف اور ماؤں کے دلوں میں اضطراب اس آفت کی اصل تصویر ہیں۔
البتہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس بار حکومت اور ریاستی اداروں نے بروقت اقدامات کیے۔ بھارت کی جانب سے ڈیموں کے دروازے کھولنے کی اطلاع پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ پاک فوج، ریسکیو 1122 اور ضلعی انتظامیہ نے مشترکہ کارروائیاں کر کے بڑی انسانی تباہی کو ٹالا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہنگامی اقدامات سے آگے بڑھ کر مستقل حکمتِ عملی اپنائیں کیونکہ سیلاب صرف پانی کی طغیانی نہیں، یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری کا امتحان بھی ہے۔ بقول شاعر،
خدمتِ خلق ہو رہبروں کا شعارِ عظیم
عدل و انصاف سے روشن ہو ہر گوشہ حریم
قربانی و ایثار سے مضبوط ہو پاکستان
ایسا توازن ہی دے گا اسے وقارِ عظیم