غزہ امن منصوبہ یا پولیٹیکل انجینئرنگ،| تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
مشرقِ وسطیٰ کا بحران اب ایک بار پھر بین الاقوامی سفارت کاری کی میز پر ہے۔ سچ ہے کہ جو قومیں اپنی زمین کے نقشے دوسروں کی میز پر رکھنے لگیں، وہ جلد اپنے خواب بھی دوسروں کی آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟ فلسطین کا نقشہ بدلنے کی کوشش بھی پرانی ہے اور خون کی روانی، آنکھوں کی نمی اور دنیا کی بے حسی بھی ویسی ہی ہے جیسی نصف صدی پہلے تھی۔
24 ستمبر 2025 کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی خصوصی ایلچی برائے امن مشنز، اسٹیو وٹکوف کی زیرِ قیادت منعقد ہونے والا غزہ امن اجلاس بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا، جسے امریکی نمائندوں نے ایک “نتیجہ خیز سفارتی پیش رفت” قرار دیا۔ اجلاس میں عرب ممالک کے رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام اور ایک 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا گیا۔ شنید ہے کہ اس منصوبے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے غزہ میں غیر عسکری عبوری حکومت کے قیام، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے حوالے سے عربوں کیلئے انتہائی سخت فیصلے کئے ہیں۔ عرب قیادت ان فیصلوں کے جواب میں فقط مراعات ہی طلب کرتی رہ گئی۔ جن میں مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی اپیل، یروشلم کے اسٹیٹس کو کا تحفظ، انسانی امداد میں اضافہ اور غیر قانونی بستیوں کے خاتمے جیسے امور پر رونا دھونا شامل ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پیش کردہ نکات میں کسی قسم کی سفارتی لچک یا سیاسی توازن کا نام و نشان نہیں۔ یہ نکات اتنے یکطرفہ ہیں کہ یورپی سفارتکاروں کی جانب سے اس منصوبے کو “سنجیدہ کوشش” قرار دیا گیا ہے اور اسے ابراہام معاہدوں کے دائرۂ کار کو وسعت دینے کا ذریعہ سمجھا گیا۔
اسی سفارتی ماحول میں جولائی 2025 میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں نیویارک میں منعقد ہونے والی کانفرنس نے دو ریاستی حل کو ازسرنو متحرک کیا ہے۔ یہ دو ریاستی حل بھی زبردستی عربوں پر تھونپا گیا ہے۔ ایسے میں عربوں کو خود سوچنا چاہیے کہ کیا عرب قیادت موجودہ عالمی نظام کے اندر فلسطین کے لیے کوئی بامعنی مقام حاصل کر سکتی ہے، یا وہ محض طاقتور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے پیش کردہ منصوبوں کی منظوری دے کر تاریخ کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہے؟ عرب قیادت کی طرف سے امریکی تجاویز کی حمایت، یا اس پر فوری اعتراض نہ کرنا، محض جیوپولیٹیکل کمزوری کی علامت نہیں، بلکہ ایک فکری، تاریخی و سیاسی بحران کی نشاندہی ہے۔
عرب ممالک کی اسرائیل کے مقابلے میں پسپائی صرف جغرافیائی پسپائی نہیں، بلکہ ایک ایسے تاریخی شعور کی عدم موجودگی ہے، جس کے بغیر قومیں محض سرحدوں پر بکھرے انسانوں کا ہجوم بن جاتی ہیں۔ جب قیادت شکم رانی و شہوت پرستی کو حکمت سمجھنے لگے، تو قومی تاریخ بزدلانہ فصیلوں کے بوجھ کے نیچے دفن ہونے لگتی ہے۔
اس وقت عرب قیادت کی اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کی پالیسی طویل مدت میں اپنی ہی معاشرتی، مذہبی اور تاریخی شناخت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ حقیقی مسئلہ سوچ اور غوروفکر کے اس سقم کا ہے جو وقتی مفادات کو مستقل تاریخی ترجیحات پر ترجیح دیتا ہے۔ جب ریاستی فیصلے محض حکومتی تسکین کے لیے کئے جائیں تو وہ سارے ملک کو ایک ایسی راہ پر لے جاتے ہیں جہاں قومی اعتماد کمزور ہو جاتا ہے۔ یعنی جب ریاستی و سیاسی ادارے عارضی مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں اور علاقائی اثر رسوخ کے خلاؤں میں بیرونی طاقتیں داخل ہونے کا راستہ پا لیتی ہیں تو قومی شناخت و اہمیت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔
فلسطین کا دو ریاستی حل کے اندرونی ابعاد فقط عربوں کی تاریخی شناخت اور قومی غیرت و حمیت کو ختم کرنے کیلئے ہیں۔ اس وقت فلسطینی سیاسی دھارے داخلی طور پر منقسم ہیں، جہاں حماس اور فتح کے بیچ خلیج مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں کوئی بھی نوزائیدہ فلسطینی ریاست داخلی کمزوری، انتشار اور علاقائی استعمار کیلئے لقمہ بنتی رہے گی۔ اس کے علاوہ ترکی جیسا ملک فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ اپنے وسیع تر اقتصادی مفادات کے کو وسعت دینے کیلئے کمزور فلسطینی ریاست کو اپنے تجارتی اڈّے کے طور پر استعمال کرے گا۔
اسرائیل جیسے غاصب ملک کو بطورِ ریاست تسلیم کرنا دنیا کے دیگر تنازعات کے لیے بھی ایک خطرناک مثال بنے گی۔ اگر اسرائیل کو دھونس اور طاقت کے زور پر سیاسی شناخت دی جائے گی تو اس روایت سے جدیدعالمی نظام میں قانون، اصول اور سفارت کاری کے بجائے، عسکری دباؤ اور پراکسی مفادات کو تقویت ملے گی۔ پناہ گزینوں کی واپسی، جسے فلسطینی ایک مقدس حق سمجھتے ہیں یہ حل در اصل اسرائیل کے لیے خاتمے کا پیغام ہے۔ لہذا دو ریاستی حل صرف کاغذ پر امن کا عکس بن سکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔ چونکہ امن کی دستاویز میں اگر مظلوم کا خراج شامل نہ ہو تو اُسے معاہدہ نہیں دھونس کہتے ہیں۔علاقائی حقیقت پسندی، ثقافتی حساسیت اور سیاسی توازن کے بغیر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا سفارتی دباو صرف گریٹر اسرائیل کی خاطر ایک دستاویزی کوششیں ہے۔ فلسطین آج جس موڑ پر کھڑا ہے، وہاں سوال یہ نہیں کہ دو ریاستی حل ممکن ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا عرب قیادت فلسطین کو بچانے کیلئے اس دو ریاستی حل کا انکار کرنے کی جرائت رکھتی ہے؟ اس وقت عربوں کیلئے امریکہ کا امن منصوبہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ امن، اگر برابری کی سطح پر قائم نہ ہو تو وہ جارحیّت کی ایک نرم شکل ہوتا ہے۔یہ 21 نکاتی امن منصوبہ جو صدر ٹرمپ کے خصوصی پیغام کی صورت میں عرب قیادت کے روبرو پیش کیا گیا یہ فلسطینیوں کے ساتھ مفاہمت کیلئے نہیں بلکہ اسرائیل کے کاملاً تسلط کیلئے ہے ۔
مسئلہ فلسطین میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کیلئے آخر میں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ غزہ امن منصوبے کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حماس کو حکومتی اختیارات سے الگ کیا جائے، یعنی غزہ کی انتظامیہ میں اس تنظیم کا کردار ختم کیا جائے، اور وہاں ایک عبوری حکومت ہو جو امریکہ و اس کے اتحادیوں اور مقامی استعمار کی اجازت سے چلے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔۔۔ یہ امن منصوبہ نہیں بلکہ ایک پولیٹیکل انجینئرنگ ہے۔ پولیٹیکل انجینئرنگ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں کسی ملک یا ادارے کی سیاسی صورتِ حال کو جان بوجھ کر مخصوص طریقوں سے اس طرح بدلا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ کسی خاص فرد، جماعت، ادارے یا طبقے کو ہو۔یہ ایک ایسا امن منصوبہ ہے کہ جہاں حماس کا وجود جرم ہے اور اسرائیل کی قابض فورسز کا وجود جرم نہیں ؟ یہ وہ نام نہاد امن منصوبہ ہے کہ جو عدل و انصاف کے بغیر قائم کیا جا رہا ہے۔لہذا مذکورہ بالا امن منصوبہ فلسطین کو ایک ایسی نیم زندہ ریاست بنانا چاہتا ہے کہ جو بولے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اجازت سے، چلے تو اسرائیل کی نگرانی میں اور باقی رہے تو مشروط معاہدوں کے ساتھ۔