عالمی تعاون، ترقی اور مشترکہ مستقبل کی تشکیل کا پیغام۔| تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اب تک کا سب سے بڑا سربراہی اجلاس اس وقت چین کے شمالی بندرگاہی شہر تیانجن میں جاری ہے، جس میں 20 سے زائد ممالک کے رہنما اور 10 بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان شریک ہیں اور عالمی عدم استحکام کے دور میں عالمی تعاون، ترقی اور مشترکہ مستقبل کے لیے ایک مضبوط پیغام کا اظہار کیا گیا ہے۔
سن 2001 میں اپنے قیام کے بعد سے، ایس سی او نے خطے میں باہمی اعتماد اور مشترکہ سلامتی کو بڑھانے پر اپنی بنیادی توجہ مرکوز کی ہے۔ عالمی کثیرالجہتی کے ارتقاء کے پس منظر میں، ایس سی او نے تعاون کا ایک نیا ماڈل متعارف کرایا ہے ۔ ایس سی او نے بلاکس کے بجائے شراکت داری اور تصادم کے بجائے مکالمہ ، کے تصور کی وکالت کی ہے۔ باہم مربوط عالمی معیشت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے، اس تنظیم نے بھی نمایاں طور پر ترقی کی ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ ممالک پرامن ترقی کے خواہاں ہیں۔
ایس سی او میں 10 رکن ممالک، دو مبصر ممالک اور 14 مکالمہ شراکت دار شامل ہیں، جو دنیا کی تقریباً نصف آبادی، عالمی زمینی رقبے کا ایک چوتھائی اور عالمی جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہیں۔
مشترکہ چیلنجز سے نمٹتے ہوئے مشترکہ مفادات کی رہنمائی میں، ایس سی او باہمی اعتماد، باہمی فائدہ، مساوات، مشاورت، تہذیبوں کے تنوع کا احترام اور مشترکہ ترقی کے حصول کی شنگھائی سپرٹ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ جذبہ تنظیم کی بنیاد ہے اور اجتماعی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
سلامتی خدشات کے پیش نظر، ایس سی او نے مؤثر طریقے سے کام کیا ہے، اور مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے نئے وژن کو آگے بڑھایا ہے۔ ایس سی او نے بڑے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر مستقل طور پر ایک ہی آواز اور ایک ہی موقف اختیار کیا ہے۔ سیاسی اور پرامن حل کی وکالت کرتے ہوئے، ایس سی او ہمیشہ عالمی امن اور ترقی کے مفاد میں کام کرتی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران معاشی تعاون میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سن 2024 میں، چین کا ایس سی او کے دیگر رکن ممالک، مبصر ممالک اور مکالمہ شراکت داروں کے ساتھ تجارت 890 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ ایک دوسرے کے لیے معاون وسائل اور بڑھتی ہوئی علاقائی مربوطیت کے ساتھ، ایس سی او ممالک میں مزید معاشی تعاون کے لیے کہیں زیادہ گنجائش اور امکانات موجود ہیں۔
عوام سے عوام کے تعلقات کے میدان میں، ایس سی او ممالک کے مابین تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ ثقافتی تبادلوں اور سیاحتی منصوبوں سے لے کر نوجوانوں، میڈیا اور صحت کے شعبوں میں تعاون تک، روایتی دوستی مزید گہری ہوئی ہے۔ ثقافت اور سیاحت کے موضوعی سالوں کے ساتھ ساتھ ثقافتی مراکز کے قیام نے ایس سی او کے متنوع تہذیبوں کے احترام کو واضح کیا ہے اور دیرپا تعاون کی بنیادوں کو مضبوط بنایا ہے۔
آج دنیا بھر میں، جغرافیائی سیاسی کشمکش اور یکطرفہ پسندی کے عروج نے عالمی امن اور ترقی کی بنیادوں کو متاثر کیا ہے۔ دنیا اب ایک اہم سوال سے دوچار ہے: تعاون یا ڈی کپلنگ ، کھلا پن یا علیحدگی؟
ایس سی او کی طاقت حقیقی کثیرالجہتی کے عزم میں مضمر ہے۔ سرد جنگ کی سوچ اور جغرافیائی سیاسی کشمکش پر مبنی فرسودہ خیالات کو ترک کرتے ہوئے، یہ غیر یقینی صورت حال سے بھرپور دنیا میں ایک قابل قدر نمونہ پیش کرتی ہے اور ترقی پذیر ممالک کو امن اور استحکام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے ترقیاتی راستوں کی تلاش کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
واضح اہداف اور پیشگی وژن کے ساتھ،یہ توقع کی جا رہی ہے کہ حالیہ تیانجن سمٹ سے علاقائی ترقی میں نئی تحریک ڈالنے، ایس سی او کے لیے ایک نیا راستہ متعین کرنے، علاقائی استحکام اور عالمی خوشحالی کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ شراکت کی توقع ہے۔