دشتِ سُخن کی تقریبِ رونمائی۔ | تحریر: اقبال حسین اقبال
حاصلِ زندگی ہے دشت سُخن
خام سی شاعری ہے دشتِ سُخن
دین اور دنیا کی اس میں باتیں ہیں
علم کی روشنی ہے دشتِ سُخن
سال 2025 اور ستمبر کی آخری شام تھی۔
انٹر کالج ہرسپو نگر کی لائبریری اپنے تمام حسن و وقار کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ کتابوں سے آراستہ الماریوں کے درمیان ادبی چراغاں سا لگ رہا تھا۔ گلگت بلتستان کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے نامور شعرا، اساتذہ، دانشور اور ادب کے چاہنے والے حاضر تھے۔ سب کی نگاہیں ایک ہی مرکز پر جمی ہوئی تھیں۔استادِ سخن، استاد حیدر خان حیدر، جن کی چوتھی کتاب “دشتِ سخن” کی رونمائی ہو رہی تھی۔
تقریب کی صدارت نامور معلم اور ادبی شخصیت ساجد علی نے کی،استاد حیدر خان حیدر نے تقریب کا استقبالیہ خطبہ پیش کیا۔ اپنے جذبات، احساسات اور تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ “کتاب کی اشاعت ایک پیچیدہ اور صبر آزما مرحلہ ہے۔اگر اس شعری گلدستے کو علم عروض کے حوالے سے دیکھا جائے تو شاید ایک شعر بھی معیاری نہ البتہ میں نے اپنے احساسات کو ادب کے آئینے میں زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔”
جبکہ معروف عالم دین آغا علی حیدر نے اپنی مسحورکن لہجے میں ولی محمد کی تقریض پڑھ کر سنائی۔تقریب کے مہمان خصوصی جناب علامہ عباس وزیری نے کہا”انسان جسم اور روح کا مرکب ہے۔جسم کی پرورش کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ روح کی پاکیزگی کے لیے نیک اعمال اور ذکر خدا کی ضرورت ہے۔بالکل اسی طرح ادیب معاشرے کو شعور و آگاہی کی رذق فراہم کرتے ہیں۔دیگر مقررین نے اپنے خطابات میں استاد حیدر خان حیدر کی علمی و ادبی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری صرف جذبات کا اظہار نہیں بلکہ فکر و شعور کی نئی راہیں کھولتی ہے۔ان کے اسلوب میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
“دشتِ سخن” کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک معلم نے کہا کہ یہ کتاب محض اشعار کا مجموعہ نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی ثقافت کی امین ہے اور بلند و بالا پہاڑوں کی حسن و عظمت بیان کو کرتی ہے۔اس میں شاعر نے اپنے تجربات و مشاہدات کو ایسے باندھا ہے کہ قاری نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور ہوتا ہے۔
آخر میں دعا کے ساتھ یہ ادبی نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ سامعین دیر تک اس محفل کے سحر میں ڈوبے رہے اور ہر دل میں یہ احساس گہرا ہوتا
گیا کہ “دشتِ سخن” آنے والے وقتوں میں گلگت بلتستان کے ادبی سرمایے کا ایک انمول حصہ ثابت ہو گی۔
