NH

نصابِ جہالت اور نصابِ تعلیم میں فرق۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

اس میں دینی اور عصری تعلیم کا کوئی فرق نہیں رہا۔ فیکٹ چیکنگ کی اہمیت ہر جگہ یکساں ہے۔ مصنوعی ذہانت نے  دونوں طرح کے نصابِ تعلیم کے لوازمات کو تبدیل کر دیا ہے۔ بطورِ مختصر آج فیکٹ چیکنگ کو  ایک  علمی مفروضے کی تشکیل کیلئے  انسانی ذہن کی بصیرت اور علم سیکھنے کے اخلاقی ڈھانچے  کا درجہ حاصل ہے۔ جدید تعلیمی نظام میں فیکٹ چیکنگ وہ صلاحیت ہے جو طالبِ علم کو ایک “غیر فعّال اور صرف سننے والے طالب علم” سے “فعّال ” بناتی ہے۔ غیر فعّال طالب  علم ایسے طالب علم کو کہتے ہیں جو سیکھنے کے عمل میں خود کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کرتا۔ وہ استاد کی بات سنتا تو ہے، نوٹس بھی لکھ لیتا ہے، ہوم ورک بھی کرتا ہے لیکن نہ سوال کرتا ہے نہ تحقیق  اور نہ ہی معلومات کو پرکھتا ہے۔  جو کچھ اسے بتایا جاتا ہے، اسے بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیتا ہے۔  دوسری طرف فعّال طالب علم  سے مراد وہ طالب علم ہے جو استاد اور کتاب کی ہر بات کو مختلف استادوں اور کتابوں کے ساتھ  پرکھتا ہے، جانچتا ہے، سوال اٹھاتا ہے اور تصدیق کے بغیر  کسی نظریے کو قبول نہیں کرتا۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی طالب علم کو فیکٹ چیکنگ کے موضوع سے آشنا اور عادی کئے بغیر اُسے فعّال نہیں کیا جا سکتا۔  سب سے پہلے ہر طالب علم کو یہ سمجھانا اور سکھانا ضروری ہے کہ کہ تعلیم حاصل کرنے  کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جو کچھ سُننے یا پڑھنے کو  ملے اسے بغیر تحقیق کے قبول کر لیا جائے۔


فیکٹ چیکنگ دراصل سوچ کر پڑھنا، سمجھ کر ماننا، اور تنقیدی ذہن سے کسی بات کو  پرکھنا ہے۔ قدیمی تعلیمی نظام میں پڑھنا، لکھنا اور سمجھنا کافی تھا، اب اے ون  نے ہر طالب علم کو یہ  شعور بھی عطا کر دیا  ہے کہ وہ یہ سوچے کہ اُسے نسل در نسل بتائے جانے والے عقائد و نظریات  کس درجے تک علمی  حقائق پر مبنی اور مستند ہیں۔  کوئی طالب علم کسی دینی مدرسے میں پڑھتا ہو یا کسی یونیورسٹی میں اُسے اےون معلومات کو چھاننے اور سچ کو پہچاننے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ یہی پرکھنے اور جانچنے کی  صلاحیت  کسی طالب علم کو  مستقبل کی علمی دنیا میں باوقار، ذمہ دار اور آزاد فکر رکھنے والا فرد بناتی ہے۔


جب طالب علم ہر دعوے کو تصدیق کے اصولوں سے گزارنا سیکھ جاتا ہے تو وہ خود ایک   ” خود مختار سیکھنے والا”  بن جاتا ہے یعنی ایسا سیکھنے والا جو محض استاد پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اپنے دماغ تک پہنچنے والی تمام نئی معلومات کے بارے میں خود سوال اٹھاتا ہے کہ یہ معلومات  کہاں سے آ رہی ہیں؟  ان کا سورس کتنا مستند ہے؟ اور  کس مقصد کیلئے یہ معلومات مجھے دی جا رہی ہیں؟ کہیں مجھے لکیر کا فقیر بنانا تو غرض نہیں؟ اور کسی نظریے کے بارے میں موجود شواہد و دلائل کس قدر تاریخی حقائق، انسانی عقل، ضمیر اور وجدان کے مطابق  ہیں؟


نصاب تعلیم  میں فیکٹ چیکنگ کا عُنصر یہ طے کرتا  ہے کہ مستقبل میں وہی نصابِ تعلیم کامیاب ہو گا جس کے بارے میں طلبا کو یہ یقین ہو گا کہ انہیں اس سے کسی بھی صورت میں  غلط یا غیر درست معلومات نہیں دی جائیں گی  ۔  اسی طرح ایسی معلومات کے پیچھے تو کوئی جائے گا ہی نہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ گھڑ کر پھیلائی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکہ دیا جائے یا ان کی رائے اور عقیدے کو  بدلا جائے۔ فیکٹ چیکنگ طلبا کو  اس قابل بناتی ہے کہ وہ اس  “انالحق انالحق” کے شور میں بھی درست، مستند اور معتبر نظریات تک پہنچ سکیں۔یوں نصابِ تعلیم میں فیکٹ چیکنگ “تعلیم کی اخلاقیات” کا دوسرا نام ہے۔


ایک طرف تو آن لائن تعلیم کی سہولت نے معلومات کی فراہمی کو عام آدمی کیلئے انتہائی آسان بنا دیا ہے، اور دوسری طرف اے ون کے  نئے چیلنجز بھی سامنے آ رہے ہیں۔اب  کسی بھی ویب سائٹ یا سکول و کالج یا دینی مدرسے  کے مواد کا تجزیہ ایک طالب علم کی علمی ضرورت کے ساتھ ساتھ اُس کی ایمانداری، انصاف، احترام اور شفافیت کا لازمی تقاضا بھی ہے۔


فیکٹ چیکنگ کا سب سے اہم  مقدمہ سورس کریڈیبلٹی ہے، جس کے مطابق معلومات کا اعتماد ہمیشہ کسی تعلیمی ادارے کی ساکھ پر منحصر ہے۔ جب ہم کسی تعلیمی ادارے یا اُس کے نصاب کو  جانچنا چاہتےہیں تو ہم دراصل  یہ جانچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ادارہ کون سی معلومات  طلبا تک ،کس شکل میں ،کس عمر میں، اور کن ذرائع سے پہنچائے گا؟ نیز  ادارے کی طرف سے کون سی معلومات روک دی جائیں گی یا تبدیل کر دی جائیں گی؟ یہ جانچنا اس لئے بھی ضروری ہے چونکہ غیر معتبر تعلیمی  ادارے علمی آرا، تعلیمی ڈسکورس﴿ تعلیمی ڈسکورس کسی منظم  دلیل پر مبنی اور باقاعدہ گفتگو یا تحریر  ہوتی ہے جو علم، تحقیق اور تعلیمی موضوعات کے اظہار و تجزیے کے لیے استعمال ہوتی ہے﴾ اور معلومات کے درست استعمال کو شدید متاثر کر سکتے ہیں۔جو چیز انہیں  اپنے تئیں اہم لگتی ہے وہ  نصاب میں ڈال دیتے ہیں اور  جو  چیز غیر اہم یا نقصان دہ لگے اُسے  نصاب میں داخل ہونے سے روک دیتے ہیں۔ اس کے برعکس معتبر تعلیمی ادارے  شفافیت، ادارہ جاتی وضاحت، اور پیشہ ورانہ ذمہ داری پر کاربند ہوتے ہیں۔


تعلیم کا یہ بنیادی نظریہ ہے کہ “پیغام کی صداقت پیغام رساں کے علم یا سوجھ بوجھ کے درجے سے جنم لیتی ہے۔اگر معلّم کی شناخت، تخصص یا تحقیقی پس منظر ظاہر نہ ہو تو لوگوں کے نزدیک اُس کی علم پیدا کرنے، سچائی تک پہنچنے، یا سوجھ بوجھ میں اضافہ کرنے کی اہمیت ماند پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح تدریس کے دوران حوالوں کے وجود اور ان کی درستگی، تدریس کے  منظم اصولوں، طریقوں، اور مراحل کی رعایت سے نصابِ تعلیم کو مقبولیتِ عام حاصل ہوتی ہے۔


فیکٹ چیکنگ میں طلبا کو کراس ویریفیکیشن کا عمل  سکھانا بھی ضروری ہے۔ یعنی ایک ہی مسئلے یا موضوع کی جانچ کے لیے ایک سے زیادہ ذرائع، طریقے یا نقطہ نظر استعمال کرنا ضروری ہے۔اس طریقہ کار میں طلبا کیلئے  زبان، تحریر یا بیانیے کا تجزیہ کر کے معنی، اثرات اور سماجی تناظر کو سمجھنا ہوتا ہے۔ ہر کتاب  ایک مخصوص مقصد اور مزاج رکھتی ہے، اس لیے اس کی ساخت اور لفظیات بھی اس مقصد کی غمازی کر رہی ہوتی ہیں۔
اگر کوئی کتاب ایک مخصوص نظریاتی پہلو پیش کرتی ہو، یا مخالف رائے کو ایسے پیش کرتی ہو کہ جیسے مخالف  مکمل طور پر برا، خطرناک یا شیطان کا آلہ کار ہے تاکہ   لوگ اس سے خوفزدہ ہو کر  اس کی مخالفت شروع کر دیں،  یا پھر مصنف  یا استاد  جذباتی زبان کے ذریعے قاری یا شاگرد  کو متاثر  کرنے کی کوشش کرے تو یہ کسی گروہ کی تبلیغ تو ہو سکتی ہے لیکن تعلیم نہیں۔ ایسی کتابوں یا مضامین کو بغیر تنقیدی معائنے کے نصابِ تعلیم میں شامل کرنا  علمی دیانت کے خلاف ہے۔

فیکٹ چیکنگ کی نصابِ تعلیم میں خاص اہمیت اس لئے بھی ہے کہ  اگر کوئی خبر انسانی فہم سے بالاترہو،  یا کوئی غیر معمولی دعوے کرے، یا جذباتی شدّت کو بطور دلیل استعمال کرے تو اسے قبول کرنے سے پہلے طالب علم کیلئے ” ذہنی اور علمی ہوشیاری”  کا مظاہرہ کرنا لازمی  ہے۔ ذہنی اور علمی ہوشیاری  یعنی ذہن کا وہ حفاظتی نظام جو سچ اور جھوٹ کے درمیان حدِ فاصل قائم کرتا ہے۔یوں فیکٹ چیکنگ کو  اب  ڈیجیٹل دور کا تنقیدی شعور،  اور تحقیقی ذہن بھی کہا جا سکتاہے۔ یہ فیکٹ چیکنگ ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر تحریر یا کتاب  ایک دعویٰ ہے، اور اس دعوے کو  سچ بننے کے لیے دلائل، حوالہ جات، نیز سائنسی طریقِ تحقیق سے گزرنا  ضروری ہے۔ یہی وہ تنقیدی شعور ہے جواے ون کے دور میں  طلبا کو  غلط معلومات کے سیلاب کے بیچ  فکری طور پر محفوظ رکھے گا  اور ایک باخبر، باشعور اور ذمہ دار معاشرہ تشکیل دے گا۔اس کے بغیر آپ کسی نصاب کو نصابِ جہالت تو کہہ سکیں گے لیکن نصابِ تعلیم نہیں۔

 

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link