یہی تقدیر کا فیصلہ تھا.| تحریر: اقبال حسین اقبال
اس دن آغازِ فجر سے ہی ہوا میں تھر تھراہٹ اور سنسناہٹ ہو رہی تھی۔تیز ہواؤں کے ساتھ ہلکی سی پھوار جاری تھی۔ایک لاچار اور مصیبتوں کا مارا شخص اپنی شریک حیات کو ہسپتال میں ایڈمٹ کرتا ہے۔مفلسی اُس کے چہرے پر عیاں تھی۔تھوڑی دیر میں ہسپتال کے در و دیوار نومولود بچی کی چیخ و پکار سے گونجنے لگتے ہیں۔زچگی کے بعد ہی ماں اس عالمِ رنگ و بُو کو الواع کر کے عالم بقا کی جانب چلی جاتی ہے۔
اپنی بدنصیبی پر روتا ہوا شخص بچی کو دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال کے باہر آکر دل گرفتہ آواز میں صدائیں دینے لگتا ہے۔کوئی ہے خدا کا بندہ جو اس غریب کی مدد کرے۔کوئی ہے جو میری اس جگر پارے کو اپنے ساتھ لے جائے۔آہ! اس بدنصیب کی فریاد سننے والا کوئی ہے؟اللہ کا کرنا ایک امیر کبیر خدا پرست خاتون وہاں پہنچ جاتی ہے جسے شاید اللہ نے خصوصی طور پر بھیجا ہو۔سیاہ آنچل والی وہ نیک پارسا عورت اس ننھی جان کو اٹھانے کے لیے ایک قدم آگے بڑھا لیتی ہے۔باپ نڈھال جسم، کانپتے ہاتھوں اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ بچی کو عورت کے حوالے کرتا ہے۔
ہسپتال میں دیگر مریضوں کے ساتھ آئے افراد جیسے تیسے کرے کے تھوڑے پیسے اکھٹے کرتے ہیں۔یہ بندہ چند افراد کو ہمراہ لیے قبرستان کی جانب چلا جاتا ہے تاکہ وہ اس عورت کو ابدی گھر میں سُلا سکے۔تدفین کے بعد لوگ واپس چلے جاتے ہیں اور یہ قبر کی مٹی کو ہاتھوں میں اٹھائے کافی دیر تک بیٹھا رہتا ہے۔آنسو ٹپک ٹپک کر ہاتھوں کی مٹی گیلی کر دیتے ہیں۔اسی لمحے ہوائیں تیز ہو جاتی ہیں۔خاک اڑنے لگتی ہے۔یہ بندہ لڑکھڑاتے پیروں کے ساتھ شہر کی جانب لوٹنے لگتا ہے اور وقت کے دھندلے سائیوں میں کہیں گم جاتا ہے۔
سیاہ آنچل والی اس خاتون کا نام نور العین تھا۔انھوں نے اس ننھی سی جان کا نام “ماہ نور” رکھا یعنی “چاند کی روشنی”۔یہ نام نہ صرف اس کے گھر کی روشنی بنا بلکہ اس ماں کے دل کا سہارا بھی تھا۔ماہ نور کو صرف گود نہیں لیا تھا بلکہ اپنی دعاؤں، راتوں کی نیند اور دنوں کی راحت بھی اس پر قربان کر دی تھی۔گلگت کی پرانی حویلی اب صبح شام ننھی ہنسی سے گونجنے لگی۔
نورالعین اکثر ماہ نور کو جھولا جھلاتے ہوئے اکثر گنگناتی تھی “اے چاند کے ٹکڑے تُو قسمت والی ہے، ماں کے بغیر بھی ماں جیسی چھاؤں میں پلی ہے۔”
ماہ نور ناز و نعم میں پرورش پاتی ہے۔جب جوان ہوئی تو قدرت نے اس پر حسن، عقل، اور سلیقے کی وہ دولت لُٹا دی کہ دیکھنے والے رشک کرتے۔محلے کی لڑکیاں اسے رشک سے دیکھتیں اور مائیں اپنی بہو کے طور پر دیکھنے کے خواب۔نور العین کی تربیت نے اسے ایسا وقار بخشا تھا کہ وہ جہاں جاتی عزت سے پہچانی جاتی۔
بالآخر قسمت نے اس کے لیے ایک رشتہ چنا ایک رنڈوا مرد، جو عمر میں اس سے خاصا بڑا تھا۔بظاہر وہ شخص سلجھا ہوا، کاروباری اور شریف لگا۔لوگوں نے مشورہ دیا، بی بی نورالعین نے استخارہ کیا اور بات پکی ہو گئی۔ماہ نور نے خاموشی سے رضا مندی ظاہر کی۔
شادی کے بعد زندگی کا پہلا سال خوشی سے گزرا۔نور نے ایک خوبصورت بیٹی کو جنم دیا عنابیہ مگر اس کے بعد وقت جیسے رک گیا۔ماہ نور کی کوکھ خاموش ہو گئی۔
دعائیں، علاج، تعویذ سب کچھ آزمایا گیا، مگر کوئی عمل کارگر ثابت نہ ہو سکا۔شوہر کا لہجہ بدلنے لگا، آنکھوں کا رنگ بدلا، باتیں تیز ہو گئیں اور پھر ایک دن بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس نے ماہ نور کو طلاق دے دی۔مجھے وارث چاہیے۔تم نہیں دے سکتیں۔میں تیسری شادی کر رہا ہوں۔
نور کچھ لمحوں کے لیے سانس لینا بھول گئی۔عنابیہ اس کی گود میں سہمی بیٹھی تھی اور کمرے کی دیواریں جیسے اس کے خوابوں کا ملبہ اپنے اندر جذب کر رہی تھیں۔
ماہ نور اپنی ماں کے گھر واپس نہیں جا سکتی تھی۔ نورالعین کچھ سال پہلے وفات پا چکی تھیں۔وراثت پر رشتہ دار قابض ہو چکے تھے۔وہ ایک کمرے کے کرائے کے مکان میں چھوٹی بچی کے ساتھ زندگی کے دن کاٹنے لگی۔ماہ نور نے سلائی کا کام شروع کیا۔دن کو کپڑے سیتی اور رات کو خاموشی سے آنکھوں میں آنسو لیے آسمان کی طرف دیکھتی جیسے اپنے رب سے پوچھ رہی ہو
کیا یہ بھی میری تقدیر تھی؟
کرایے کے اس چھوٹے سے مکان میں دو زندگیاں سانس لے رہی تھیں ایک ماں، ایک بیٹی اور دونوں کی سانسیں جیسے وقت کے رحم و کرم پر تھیں۔مکان کا کمرہ چھوٹا تھا، دیواروں پر نمی تھی، چھت ٹپکتی تھی اور فرش پر محض ایک پرانا دری بچھا تھا۔ماہ نور جو کبھی نرم بستر اور محبت کے حصار میں پلی تھی آج خود کو ایسی دنیا میں پاتی تھی جہاں ہر دروازے پر خودداری سے پہلے بھوک دستک دیتی تھی۔
محلے کی عورتیں سرگوشیوں میں کہتیں:
یہی ہے وہ لڑکی جو کسی زمانے میں بی بی نورالعین کی لاڈلی تھی۔نور سنتی، مگر کچھ کہتی نہیں۔
اس کی بیٹی، عنابیہ اس کا واحد سہارا تھی۔ وہ اسکول جاتی، شام کو ماں کا ہاتھ بٹاتی۔ماہ نور اسے سب کچھ سکھاتی۔ وہی دعائیں، وہی سبق جو بی بی نورالعین نے کبھی ماہ نور کو سکھائی تھیں۔
مہینے کی پہلی تاریخ کو جب مالک مکان کرایہ مانگتا ماہ نور کے ہاتھ کپکپانے لگتے۔کبھی وقت پر دیتی، کبھی مہلت مانگتی اور کبھی آنسوؤں سے جواب دیتی۔
اکثر راتوں کو جب عنایہ سو جاتی، ماہ نور چھت کے ایک کونے میں بیٹھی آسمان کی طرف دیکھتی اور دور آسمان میں موجود چاند سے گفتگو کرتی اس کی آواز ٹوٹ جاتی اور کبھی اللہ پوچھتی یا اللہ! کیا میری قسمت میں فقط ادھورے خواب تھے؟ یا ابھی کچھ اور باقی ہے؟
ماہ نور کا چہرہ وقت سے تھکا ہوا ہے مگر آنکھوں میں ابھی بھی ایک روشنی باقی ہے جیسے کسی اندھیرے غار میں دور کہیں سورج کی ایک کرن نمودار ہوئی ہو۔
تو کہانی کے پردے میں ہی بھلی لگتی ہے
زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی
