زمیں کھسکنے لگی۔ شاعر : رشید حسرتؔ
زمیں کھسکنے لگی، سر سے سب فلک تو گئے
وداع کرنے اسے ساتھ دور تک تو گئے
جواب لب سے محبت میں کیا ضروری ہے؟
کہ اعتراف میں کنگن مرے کھنک تو گئے
وہ میرے ہاتھ سے راکھی بندھا کے لوٹ گئی
بھلا ہؤا یہ، کسی کے شکوک و شک تو گئے
اگر ہیں زندہ تو سمجھو تمہاری آس میں ہیں
جو اتفاق سے پائی کبھی جھلک، تو گئے
میں چند روز میں اُس پر کھلا تو کیا ہو گا
بناوٹوں سے مرے عیب آج ڈھک تو گئے
مشقتوں کا ہمیں کچھ صلہ ملا ہی نہیں
اگرچہ سامنے اپنے اناج پک تو گئے
رشیدؔ وقت نے کس غار میں ہے لا پٹخا
کرم کے ابر کھلے، اب کُھلی دھنک، تو گئے
