ہم سے روزوں کے تقاضے نہ نبھائے جاتے۔| شاعر: امجد علی راجاؔ
ہم سے روزوں کے تقاضے نہ نبھائے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی نہ کھائے جاتے
ہے مٹھائی بھی ستائیسویں شب تک محدود
ورنہ ہم روز تراویح میں پائے جاتے
لذت و راحت و تسکین بمع چٹخارہ
یہ ہنر صرف پکوڑوں میں ہیں پائے جاتے
جانے کیوں ہم پہ ہی لازم ہے بنانا سحری
سحری کھانے کو تو ہیں مرد اٹھائے جاتے
ماہِ رمضان میں اسلام بہت بِکتا ہے
نعت خوانی میں تو لاکھوں ہیں کمائے جاتے
تیس روزوں کے عوض سوچ تو ستر حوریں؟
شیخ جی میتھ میں ہم کیوں ہیں ٹھگائے جاتے
یہ تو مہنگائی کی برکت ہے کہ توبہ کرلی
ورنہ اس بار بھی روزے سبھی کھائے جاتے
ہم بھی افطار کی دعوت میں نہ بھوکے رہتے
گُر جو راجاؔ ہمیں حملے کے سکھائے جاتے
