سانحہ سولہ دسمبر۔۔۔ ہم کمزور ہیں یا طاقتور؟۔ | تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
سوچنے کی بات ہے کہ مقتول بچوں کی ماوں کا دل زیادہ کس چیز سے زخمی ہوا؟ درندوں کی گولیوں سے، یا اپنے ہی وطن کے طاقتوروں کی بے حسی سے؟ سولہ دسمبر کو ہر محب وطن پاکستانی حیران رہ جاتا ہے کہ اس دن رونا کس پر چاہیے ؟ انسانیت کے دشمنوں کی درندگی پر یا ریاست کی طاقتور اور بے حس مشینری پر؟
گیارہ سال گزر جانے کے بعد بھی دسمبر کا خوف اور غم کم نہیں ہوا۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پاکستان کی تاریخ کی ان چند راتوں میں سے ایک ہے جو قوم کی اجتماعی یادداشت پر ہمیشہ کے لیے خوفناک بھوت کی مانند سوار رہے گی ۔ اس رات نے 144 خاندانوں میں قیامت برپا کرکے پوری قوم کے دلوں پر ایک ایسا زخم لگایا جو کبھی مندمل نہیں ہو گا۔ ہمارے بڑوں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ جہاں اُن کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے دشمن کا وار شروع ہو گا۔
خیر دشمن کا وار اپنی جگہ مہلک ثابت ہوا لیکن کیا اپنوں کی زبان سے لگائے ہوئے زخم بھی کبھی بھر پائیں گے؟ سانحے کے بعد شہداء کے لواحقین پر کیا بیتی ہو گی کہ جب سابق کور کمانڈر نے یہ ناقابلِ فراموش اور تاریخی جملہ کہا ہو گا کہ “جو ہوا وہ ہوا، آپ اور بچے پیدا کریں۔” یہ جملہ دشمن کی زبان سے نہیں بلکہ شہید بچوں کی روتی اور سسکتی ہوئی ماوں کیلئے اس ملک کے ایک اعلیٰ جنرل کی زبان سے ادا ہوا۔ 16 دسمبر 2014ء کی سیاہ رات پہلے ہی تاریخ کا ایک المناک صفحہ تھی لیکن اس بے حسی نے اس رات کو مزید تاریک بنا دیا۔ ریاست اس جملے کیلئے بانی پاکستان اور مفکر پاکستان کے سامنے ہر لمحے جواب دہ ہے۔ سچ ہے کہ طاقت جب احتساب اور احساس سے خالی ہو جائے تو ریاست کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔سانحہ اے پی ایس محض ایک دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا بلکہ یہ اس طویل پالیسی کا ثمر بھی تھا جس کے تحت اس ملک میں عشروں تک مذہبی، عسکری اور فاشسٹ جتھے پالے گئے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، البدر فورس اور دیگر کئی گروہ خود ریاستی سرپرستی، سیاسی ضرورتوں اور جغرافیائی مفادات کے نام پر پیدا کیے گئے۔ یہی جتھے بعد میں ریاست، عوام، پولیس، اور فوج کے اپنے سپاہیوں کے لیے آگ اور خون کی آندھی لے کر آئے۔ نہ جانے کتنی ماؤں کے دوپٹے ان گروہوں کی اندھی گولیوں سے بھیگے۔
سن 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان بھی اسی پالیسی کا تسلسل تھا۔ یہ پالیسی بھی کیا پالیسی تھی کہ جس کے تحت عوامی رائے کو نظر انداز کرنا، سیاسی مینڈیٹ کو پس پشت ڈالنا، اور غیرجمہوری و عسکری گروہوں کو عوام کی آواز کے مقابل لا کھڑا کرنا درست قرار پایا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان قومی سانحات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ نہ ہم نے جتھہ سازی ختم کی، نہ جمہوریت کو مستحکم کیا، نہ عوامی مینڈیٹ کی حرمت کو سمجھا۔
سات دسمبر 1970ء کے انتخابات، مشرقی پاکستان کا واضح عوامی مینڈیٹ، اور پھر اس مینڈیٹ کے ساتھ ہونے والی زیادتی ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ ریاست کی بنیادیں طاقت یا بندوق سے نہیں بلکہ انصاف، جمہوری اصولوں اور عوامی اختیار سے مضبوط ہوتی ہیں۔ جب کسی ریاست میں منطق، دلیل اور قانون کی بجائے گروہوں، جتھوں اور غیرقانونی طاقتوں پر تکیہ کیا جاتا ہے تو پھر 16 دسمبر 1971ء کا المیہ ہو یا 16 دسمبر 2014ء کا سانحہ ، ایسا انجام ایک فطری ردعمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔
لگتا ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی ادارے کے نصابِ تعلیم و تربیّت میں ماؤں کے دکھ کا احساس، مجبور سے ہمدردی، طاقتور کو ٹوکنا، رشتوں کا تقدّس، اور چادرو چار دیواری کی حُرمت شامل ہی نہیں ۔ ہمیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ کسی روتی ہوئی ماں کے سامنے خاموش رہنا، اس کے آنسوؤں کی تعظیم کرنا ، اُس کی مامتا کو احساسِ تحفظ دینا اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنا کتنی بڑی نیکی ہے۔ اے پی ایس کی ماؤں کا دکھ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ماں کی طرح وہ بھی اپنے بچوں کی یاد کے ساتھ زندہ ہیں، اُن کا ہر دن اُن کے شہید بچوں کی خوشبو سے جڑا ہُوا ہے۔ایسے عالم میں جب کسی نے انہیں یہ کہا ہوگا کہ “پھر کیا ہوا، تم اور بچے پیدا کرو”، تو یہ جملہ شہید بچوں کی ماوں کے رُخساروں پر ایک ایسا طمانچہ تھا جو زندگی بھر توہین کی ایک علامت کے طور پر انہیں یاد رہے گا۔ یہ وہ جملہ تھا جس نے یقیناً اُن کے دلوں کو چیر کر رکھ دیا اور یہ وہ لمحہ تھا کہ جب مائیں جو بڑی مشکل سے خود کو سنبھال رہی تھیں دوبارہ بکھر گئیں۔
یہ اُداس مائیں اس دھرتی کی بیٹیاں ہیں۔ کیا ان کے صبر کے صدقے میں اس سال ۱۶ دسمبر کے دن ہم سب تاریخ پاکستان کو اپنے ہاں ایک روشن آئینے کے طور پر قبول کرنے کیلئے تیار ہیں؟ کیا اِس آئینے میں ہم اپنے اعمال کا عکس دیکھنے کے قابل ہیں؟ کیا ہماری تاریخ ہمیں یہ نہیں سکھاتی کہ ریاست طاقت، بندوق اور عسکری برتری کے ساتھ ساتھ انصاف، قانون، انسانی ہمدردی، اخلاق اور عوامی مشاورت و جمہوری اختیارات کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ جو قوم اپنی بیٹیوں کی عظمت، عوام کی رائے ، قانونی میرٹ، اجتماعی عقل، اور جمہوری مینڈیٹ کو نظر انداز کرتی ہے، وہ اپنی بقا کے لیے خود خطرات کو جنم دینے لگتی ہے۔ 1970ء کے انتخابات اور مشرقی پاکستان کا المیہ اس تلخ حقیقت کے گواہ ہیں کہ عوامی آواز کو پس پشت ڈالنا کتنی مہلک تباہی لا سکتا ہے۔کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم تاریخ ِ پاکستان سے یہ سیکھیں کہ ریاست کی سرپرستی میں پروان چڑھائے گئے فاشسٹ عسکری اور مذہبی ٹولے و جتھے ہی ریاست و قوم کے سب سے بڑے دشمن ہوا کرتے ہیں۔ کیا طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور دیگر گروہوں کی داستانیں اور 16 دسمبر 2014ء کا سانحہ یہ واضح نہیں کرتا کہ ظلم اور غیر قانونی طاقت کا بیج جب بویا جائے تو اُس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیا ہم یہ نوشتہ دیوار پڑھنے کیلئے آمادہ ہیں کہ طاقت و اقتدار کے حصول کی خواہش قانون، انصاف اور اخلاق سے عاری ہو تو وہ خود ہی قیامت کا سامان بن جاتی ہے؟
معصوم شہری، خاص طور پر بچے اور مائیں کسی بھی قوم کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتےہیں۔ اے پی ایس سانحے نے یہ حقیقت ہم سب پر عیاں کی ہے کہ انسانی ہمدردی اور اخلاقی شعور کی کمی انسانی رویّوں اور انسانی جذبات کیلئے کتنی تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ ماؤں کے زخم، شہید بچوں کی قربانی اور ان کی قبروں کے نشان ہمیں ہمیشہ یہ یاد دلاتے رہیں گےکہ مضبوط وہ نہیں ہوتا جس کے پاس ہتھیار زیادہ ہوں بلکہ مضبوط وہ ہوتا ہے جس کے شہروں میں تحفظ اور شہریوں میں احساسِ تحفظ زیادہ ہو۔ ہمیں دل و جان سے یہ مان لینا چاہیے کہ کسی بھی قوم کی عظمت اس کی ماؤں کے تقدس اور بچوں کے مستقبل کی حفاظت میں چھپی ہوتی ہے۔
شہید بچوں کی یہ قبریں ہمیں یہ پیغام بھی دیتی ہیں ہے کہ اچھی تعلیم، عوام دوستی، عوام سے ہمدردی، انسانیت کے تحفظ، جمہوریت، عوامی مینڈیٹ اور انصاف کے بغیر کہیں پر بھی کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ہمیں جتھہ سازی کے بجائے معیاری تعلیم و تربیّت پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ جب ریاست معیاری تعلیم ، منطق اور قانون کی بجائے جتھوں، گروہوں اور غیر قانونی طاقتوں پر انحصار کرتی ہے تو سوسائٹی 1971ء کے المیے سے لے کر 2014ء کے سانحے تک کے زخم بار بار دہراتی ہے۔
تاریخ صرف آئینہ ہی نہیں بلکہ ایک خاموش استاد بھی ہے، ایسا استاد جو ہر نسل کو اپنے اعمال کے عواقب سمجھاتا ہے۔ جو قوم آئینہ دیکھنا پسند نہیں کرتی اور اپنے اُستاد کی بات پر کان نہیں دھرتی، وہ تاریخی جبر کے طور پر ماضی کے زخموں کو بار بار دہرانے پر مجبورہے۔ اُس کے بچوں کا مستقبل کبھی خود کش جیکٹوں، کبھی منشیات اور کبھی غیرقانونی تاریک وطن کی صورت میں ہمیشہ مخدوش ہی رہے گا۔ اگر ہم معیاری تعلیم، انصاف، اخلاق اور رفاہِ عامہ کی فراہمی کو اپنی فعالیت اور سرگرمیوں کی بنیاد بنائیں تو ایک مضبوط، زندہ اور تابناک قوم کی تعمیر آج بھی ممکن ہے۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ انصاف، اخلاق، انسانی ہمدردی ، قانون کا احترام، عام آدمی کی توقیر، کرپشن سے نجات، اور عوامی اختیار کے بغیر کوئی قوم حقیقی معنوں میں قوم نہیں بن سکتی اور کوئی ملک کبھی مستحکم نہیں ہوسکتا۔کیا اے پی ایس پشاور کا مورخ پاکستان کو ایک مضبوط ریاست لکھ پائے گا؟ کیا مذکورہ جملے کے بعد تاریخ یہ گواہی نہیں دے گی کہ جہالتِ قدیم میں بیٹیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، اور جہالتِ جدید میں ماوں کو زندہ درگور کیا گیا۔ مائیں تو ایک جیسی ہی ہوتی ہیں، چاہے مشرقی پاکستان کی ہوں یا مغربی پاکستان کی۔ ماوں کے جذبات تو ایک جیسے ہوتے ہیں ان کے زخم، ان کے دکھ، ان کی چیخیں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ کیا ہم شعوری طور پر اتنے کمزور ہیں کہ بیٹیوں کے تقدس اور ماوں کے جذبات کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں؟ کیا ہم آزادانہ طور پر یہ سمجھنے کیلئے تیار ہیں کہ ان بیٹیوں اور ماوں کے سامنے ہم بحیثیت قوم اور بحیثیتِ پالیسی میکر کمزور ہیں یا طاقتور؟
