سینیٹر تاج حیدر: ایک سیاستدان اور فلسفی کی رحلت۔ | تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

تاج حیدر پاکستان کی سیاسی، علمی، ادبی، فکری اور فلسفیانہ دنیا کا ایک ایسا روشن چراغ تھے، جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے تک ہر میدان میں بصیرت، سچائی، جمہوریت اور ترقی پسندی کی شمع روشن کیے رکھا۔ وہ نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے بلکہ ملکی پالیسی سازی، تعلیم، سوشل ویلفیئر، فنونِ لطیفہ، ڈراما نگاری اور ایٹمی منصوبہ بندی جیسے حساس شعبوں میں بھی اپنے افکار و کردار کی چھاپ چھوڑ گئے۔

تاج حیدر 1942ء میں کوٹہ (راجستھان) میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے بعد کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ تعلیم کے میدان میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے جامعہ کراچی سے ریاضی میں بی ایس سی (آنرز) اور بعد ازاں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ علمی فکر اور تجزیاتی سوچ ان کے فکری پس منظر کا حصہ بن گئی۔

ادب اور فنونِ لطیفہ سے تاج حیدر کی محبت ان کے ڈراموں، کالموں اور تحریروں سے جھلکتی ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن پر ان کے لکھے ہوئے ڈرامے جیسے آبلہ پا، چارہ گر، جنہیں راستے میں خبر ہوئی اور لب دریا عوامی شعور کو جگانے کا ذریعہ بنے۔ ان کے ڈراموں میں ہمیشہ سماجی ناانصافی، پسماندہ طبقات کی محرومیاں اور سیاسی شعور کے عناصر نمایاں نظر آتے ہیں۔

تاج حیدر نے 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے سوشلسٹ کنونشن میں شرکت کی اور پھر تاحیات اس پارٹی کے وفادار اور متحرک رکن رہے۔ ان کا سیاسی فلسفہ عوامی مسائل کا حل، ریاستی اداروں میں توازن اور جمہوریت کی بالادستی پر مبنی تھا۔ وہ 1995ء میں پہلی بار سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے، بعد ازاں 2014ء میں دوسری مرتبہ سینیٹ میں نمائندگی کی۔

تاج حیدر نے بطور پالیسی ساز کئی کلیدی منصوبوں میں بنیادی کردار ادا کیا، جن میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس، حب ڈیم، تھر کول پراجیکٹ، منچھر جھیل کی بحالی اور سینڈیک انٹیگریٹڈ منیرل ڈویلپمنٹ پروجیکٹ شامل ہیں۔ ان کے ترقیاتی وژن میں ماحولیات، تعلیم، صحت اور انرجی جیسے بنیادی شعبے شامل تھے۔

ان  کی فکری وابستگی بائیں بازو کی سیاست اور مارکسسٹ فلسفے سے تھی۔ ان کی تحریریں معاشرتی جمہوریت، ریاستی طاقت کے توازن اور سماجی شعور کے فروغ کا پتا دیتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں ان کی تحریریں اور مزاحمت بھرپور انداز میں سامنے آئیں۔ نیوکلیئر پالیسی کے سلسلے میں ان کی بیباکی اور قومی خودمختاری کے حق میں دلیرانہ مؤقف قابلِ ستائش ہے۔

تاج حیدر نے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا اور عالمی سیاسی و سماجی رجحانات کو پاکستانی معاشرے سے جوڑنے کی سعی کی۔ ان کا وژن بین الاقوامی سطح پر پختگی اور شعور کا حامل تھا۔

مورخہ 08 اپریل 2025ء کو کراچی میں سرطان کے باعث ان کا انتقال ہوا۔ ان کی وفات پاکستان کے علمی، ادبی، سیاسی اور فکری حلقوں کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

ان کی شاندار خدما ت کے اعتراف میں حکومت پاکستان  نے انہیں ستارہ امتیاز کا اعلیٰ اعزاز عطا کیا ہے۔ پی ٹی وی نے نے انہیں بہترین مصنف کاایوارڈ  2006ء میں عطا کیا ہے۔ وہ ایک بہترین ریاضی دان، جنگ مخالف کارکن، سیاستدان، ڈرامہ نگار، فلسفی اورنڈر  کالم نگار تھے۔

تاج حیدر ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے علم، ادب، سیاست، فلسفہ اور عوامی خدمت کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اپنی تحریروں، ڈراموں، سیاسی موقف، پالیسی سازی اور فکری استقامت کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ معاشرتی ترقی، فکری آزادی اور انسانی وقار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ ”تاج حیدر زندہ رہے گا ہر اس لفظ میں جو سچ بولنے کی ہمت رکھتا ہے، ہر اس قدم میں جو ظلم کے خلاف اٹھتا ہے”۔

DRAC
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link