ذکی طارق کی حمدیہ شاعری میں دعائیہ عناصر۔ | تبصرہ : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی۔
ذکی طارق بارہ بنکوی کہتے ہیں
” مجھ کو اب چشمِ کرم تیری خدایا چاہیے
یعنی میرے درد اور غم کا ازالہ چاہیے”
ذکی طارق بارہ بنکوی کا تعلق سعادت گنج، بارہ بنکی، یوپی، بھارت سے ہے، اردو میں حمد، نعت، نظم اور غزلیں لکھتے ہیں۔ ان کی یہ حمد باری تعالیٰ ایک عاجز بندے کی التجا اور دعا کی شکل میں لکھی گئی ہے جس میں شاعر اللہ تعالیٰ سے چشمِ کرم، درد و غم کے ازالے اور اپنی نظر کو اس کے جلوے سے منور کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر خدا کی قدرت اور شانِ بے نیازی کو تسلیم کرتے ہوئے محض دنیاوی نعمتوں کے بجائے اس کی رضا اور قربت کا طلبگار ہے۔ وہ کہتے ہیں:
میں نے کب مانگا ہے تجھ سے تیری مرضی کے سوا
جو مقدر میں لکھا ہے، وہ تو ملنا چاہیے
تجھ سے تیری شانِ والا کے مطابق ہے سوال
ایک دو قطرے نہیں، مجھ کو تو دریا چاہیے
یہ حمد ایک مومن کی سچی طلب، انکساری اور خدا کی رحمت پر کامل یقین کا مظہر ہے۔ شاعر دنیاوی آسائشوں کے بجائے اللہ کی رضا کو اصل دولت سمجھتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ وہ اپنی بندگی کا حق ادا کر سکے۔ اس میں اللہ کی رحمت، قدرت اور شانِ بے نیازی کو نمایاں کیا گیا ہے، جبکہ بندے کی محتاجی اور نیازمندی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے :
چاند، سورج اور چراغ و برق لے کر کیا کروں
اے خدا میری نظر کو تیرا جلوہ چاہیے
تیرا بندہ ہوں خدا، ثابت مُجھے کرنا ہے یہ
میری پیشانی کو اب توفیقِ سجدہ چاہیے
یہ حمدیہ اشعار غزل کی ہیئت میں لکھے گئے ہیں جس میں ہر شعر ایک مکمل دعا اور التجا کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اشعار میں ردیف و قافیہ کی خوبصورت ترتیب موجود ہے جو کلام میں نغمگی اور تاثیر پیدا کرتی ہے۔ زبان سادہ مگر پُراثر ہے جو براہِ راست قاری کے دل پر اثر ڈالتی ہے۔ شاعر کہتا ہے:
تُو ہے وہ جو سنگ میں کیڑوں کو دیتا ہے غذا
اے خدا ہم بھوکوں کو بھی آب و دانہ چاہیے
پھر تِرے بندوں کی خاطر آگ ہے دہکی ہوئی
پھر جہاں کو تیری قدرت کا کرشمہ چاہیے
ذکی طارق بارہ بنکوی کی اس حمدیہ اشعار میں کئی ادبی خوبیاں موجود ہیں جن میں تشبیہ و استعارہ، تکرار و تاکید، سوالیہ اور التجائیہ انداز شامل ہیں۔ چاند، سورج اور چراغ و برق جیسی ترکیبیں دنیاوی روشنیوں کی علامت کے طور پر استعمال کی گئی ہیں، جبکہ “تیرا جلوہ” اصل روشنی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تکرار اور تاکید شاعری کو مزید دلچسپ بناتا ہے۔ ”چاہیے” کا بار بار استعمال شاعر کی طلب اور گہرے احساسات کو اجاگر کرتا ہے۔ دنیاوی اور اخروی نعمتوں کے درمیان فرق کو نمایاں کرنے کے لیے “ایک دو قطرے” اور “دریا” جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ سوالیہ انداز بھی خوب ہے جیسے ”میں نے کب مانگا ہے تجھ سے تیری مرضی کے سوا” جیسا اسلوب شاعر کی عاجزی اور تقدیر پر یقین کو ظاہر کرتا ہے۔
اس حمد باری تعالیٰ میں ایک مکمل فکری و روحانی تجربہ پیش کیا گیا ہے جس میں شاعر کا اللہ پر غیر متزلزل ایمان جھلکتا ہوئی دکھائی دیتا ہے۔ شاعر نے اللہ سے دنیاوی خواہشات کے بجائے اس کی رضا، قربت اور بندگی کی توفیق طلب کی ہے، جو اسلامی عقائد اور صوفیانہ طرزِ فکر سے ہم آہنگ ہے۔”مجھ کو اب چشمِ کرم تیری خدایا چاہیے” یہ مصرعہ شاعر کی التجا کا خلاصہ ہے جس میں وہ اللہ کی رحمت اور مہربانی کا طلبگار ہے۔ “تُو ہے وہ جو سنگ میں کیڑوں کو دیتا ہے غذا” یہاں شاعر اللہ کی قدرت کا ذکر کرتا ہے کہ وہ بے جان چیزوں میں بھی زندگی کی رمق ڈالنے کی قدرت رکھ سکتا ہے تو پھر انسان کی ضروریات پوری کرنا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ “غم نہیں ہے کچھ جو دُنیا میں کوئی اپنا نہیں” یہ مصرعہ صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے جو دنیا کی بے ثباتی اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسے کی علامت ہے۔ شاعر کہتا ہے :
غم نہیں ہے کچھ جو دُنیا میں کوئی اپنا نہیں
ہم کو اے مولا سہارا صرف تیرا چاہیے
ذکی طارق بارہ بنکوی کی یہ حمد ایک سچے مومن کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے، جو دنیاوی مال و دولت کے بجائے اللہ کی رضا کو اصل کامیابی سمجھتا ہے۔ سادہ اور پُراثر زبان، خوبصورت تشبیہات اور موثر انداز بیان اس حمد کو دیگر حمدیہ اشعار سے منفرد بناتے ہیں۔ میں شاعر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے حمدیہ دعائیہ اور التجائیہ عناصر کو شامل کرکے ایک نئے اسلوب کی شاعری تخلیق کی ہے