میں کس کے ہاتھ پہ اپنا مستقبل تلاش کروں۔| تحریر: عرشی عباس
کراچی میں میٹرک کے حالیہ نتائج اور اس کے نتیجے میں کالج کے داخلوں پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے جہاں میرٹ کی بنیاد پر داخلہ کا نظام ناکام ہو رہا ہے وہیں والدین اور طالبعلموں کی پریشانیوں میں بھی اضافے کا باعث بنتا جارہا ہے۔ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو آج یہ مسٸلہ ہمیں ایک ان دیکھے طوفان کی جانب لے کر جارہا ہے۔
کچھ ایسے مسائل ہیں جو اس صورتحال کو متاثر کر رہے ہیں۔
جیسا کہ کالجوں میں ساٸنس گروپ میں نشستوں کی کمی اب اگر طلباء کی ایک بڑی تعداد نے غیر معمولی طور پر زیادہ نمبر حاصل کیےہیں تو یہ کالج کے داخلوں کے لیے ایک منصفانہ میرٹ لسٹ کو برقرار رکھنے میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور جس سے بہت سے طلباء کے لیے معروف کالجوں میں جگہ حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور ایسا ہی کچھ ہمارے طالبعلموں کے ساتھ ہو رہا ہے میرٹ پر آنے والوں کی تعداد کالجز میں وہی پرانی ہے جب کہ وقت کیساتھ ساتھ جیسے جیسے طالبعلم کے پوزیشن میں اضافہ ہوا ہے اس تناسب سے کالجوں میں نشستوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔
دوسری طرف میرٹ کی فہرستوں کا حساب لگانے اور اسے ظاہر کرنے کے عمل میں بعض اوقات شفافیت کا کوٸ خیال نہیں رکھا جاتا، جس سے طلباء اور والدین میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اگر داخلوں کا معیار واضح نہیں ہے یا اگر نتائج میں تضادات ہیں تو یہ الجھن اور مایوسی کو جنم دے سکتا ہے۔ جو کہ ہمارے معاشرے کے لۓ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
بعض اوقات، میرٹ لسٹ یا داخلہ کے عمل میں غلطیاں بھی مستحق طلباء کو نظر انداز کرنے کا باعث بنتی ہیں اوریہ تکنیکی خرابی، انسانی غلطی، یا بدانتظامی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
اگر یہ مسائل برقرار رہتے ہیں تو یہ طلباء اور والدین کے احتجاج یا نتائج یا میرٹ لسٹ کی دوبارہ جانچ کے مطالبات کا باعث بن سکتا ہے۔
یہاں کراچی میں ہونے والےطلباء کی میرٹ پر داخلے کے مسئلے میں کئی عوامل شامل ہو سکتے ہیں۔ جن میں سے چند خدشات یہ ہوسکتے ہیں۔
ایک طرف تو کرپشن اور اقرباء پروری کی وجہ سےطلباء کو غیر منصفانہ طرز عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں اب تک ذاتی روابط، رشوت یا اثر و رسوخ کی وجہ سےمیرٹ کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
دوسری طرف اگر دیکھیں تو بعض دفعہ، میرٹ کی بنیاد پر داخلے کو کوٹہ سسٹم کے ذریعے سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے جو کچھ خاص گروپوں کو ترجیح دیتے ہیں،اورجس کی وجہ سے میرٹ کو کسی گنتی میں نہیں لیا جاتا اور اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ زیادہ تر امتحانات کے دوران دھوکہ دہی یا گریڈنگ میں جانبداری بھی محنتی طلباء کے میرٹ کو نقصان پہنچا تی ہے۔کیونکہ اکثر نہیں بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی جماعتیں بعض اوقات تعلیمی اداروں پر اثر انداز ہوتی ہیں جو کہ داخلوں، گریڈنگ اور یہاں تک کہ اسکالرشپ کو بھی متاثر کرتی ہیں اور وہ میرٹ پر مبنی نظام کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچا تی ہیں۔
ہم کہ سکتے ہیں کہ معیاری تعلیم تک رسائی میں ایک جیسا معیار نہ رکھنا بھی میرٹ پر ایک کاری ضرب ہیں، جہاں مراعات یافتہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء کو بہترین کارکردگی کے زیادہ مواقع میسر ہوتے ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ کی طرف بھی ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اگر بچوں کو انکے میرٹ کی بنیاد پہ انکے تعلیمی گروپ میں داخلہ نہیں ملتا تو پھر والدین اور طلباء کا رخ اپنے مستقبل کی خاطر پرائیویٹ انسٹیٹیوٹ یا کالجز کی جانب ہوگا جو کہ ہر والدین کی دسترس میں نہیں کیوں کہ ان کالجز کی ماہانہ فیس ہی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔لیکن ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ کہیں یہ پراٸیوٹ کا لجوں کی طرف دھکیلنے کا عمل تو نہیں۔
یہ عوامل ان طلباء کے لیے اہم چیلنجز پیدا کر سکتے ہیں جو اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کیریئر میں آگے بڑھنے کے لیے میرٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن یہاں ہم ایک اور بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اگر اسی طرح تعلیم اور طلباءکا استحصال شروع ہو نے لگے گا تو وہ وقت دور نہیں کہ جو حالات کچھ عرصے پہلے بنگلہ دیش میں ہمیں نظر آرہے تھے تویہاں بھی طالب علموں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر اپنے مستقبل کی تلاش میں نکل کھڑی ہوگی۔