دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں اور صحافی خواتین کی ضرورت۔ | تحریر : عرشی عباس

دنیا میں اس وقت جو سب سے بڑا خطرہ انسانی زندگی کو درپیش ہے وہ ہے فضائی آلودگی اوراس آلودگی کو بڑھانے میں بہت سے عوامل سامنے آتے ہیں جن میں سب سے اہم ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جس کی وجہ سے ہم مختلف طریقوں سے طبعی اورماحولیاتی طور پر ان سے دوچار ہوتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہیں جس کی لپیٹ میں دنیا کے کئی ممالک آ چکے ہیں۔ اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے یہی  نہیں بلکہ اس کی وجہ  سے دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جو کہ  دنیا بھر میں قدرتی آفات کی صورت میں ہمارے سامنے آ رہے ہیں یہ موسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی آفات دنیا کے لئے بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے بہت سے ادارے اس سلسلے میں سرگرم عمل ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں گرین میڈیا اینشیٹوزاور کلائمیٹ ایکشن سینٹر کے تعاون سے 25 صحافیوں پر مشتمل     فی میل میڈیا کوہارٹ فار کلائمیٹ چینج کی تشکیل عمل میں آئی   جس کے تحت خواتین لکھاریوں کو ماحولیات کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ لکھنے کی جانب مدعو کرنا اور انھیں اس اہم موضوع کی طرف لوگوں کی توجہ دلانا مقصود تھا۔

 تقریب میں صحافت میں نمایاں مقام رکھنے والے افراد نے اپنے تجربات اور خیالات کا ظہار کیا جن میں کمال صدیقی، یاسمین سلطانہ فاروقی، حسن عباس، عامر لطیف، فرح ناز زاہدی، یاسر دریا،لبنا جرار، رفیع الحق، منزہ صدیقی شامل تھے۔

گرین میڈیا انشیٹیوز کی سربراہ شبینہ فرازجو کہ خود بھی ایک سینئر ماحولیاتی صحافی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی شدید ترین قدرتی آفات کے زد میں ہے۔ اور ان خطرات کے شکار دس ممالک میں اس وقت پاکستان کا نمبر پانچواں ہے جن میں سیلاب، خشک سالی، سمندری سطح کا بڑھنا، سمندری طوفانوں میں اضافہ، بارشوں کا بے ترتیب دورانیہ شامل ہے۔

سن 2022 کے  سیلاب میں پاکستان کا ایک بہت بڑا حصہ زیر آب تھا، جس کی وجہ سے    1,739افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہمارے معاشرے میں قدرتی وسائل سے خواتین براہ راست جڑی ہوتی ہیں۔

قدرتی آفات میں متاثرین در بدر ہوتے ہیں، کیمپوں میں ٹھہرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کا اثر خواتین پر ہوتا ہے۔ ناکافی خوراک، ہراسانی، ٹوائلٹ کا نہ ہونا ان کی صحت کو شدید متاثر کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان وسائل کا نقصان خواتین پر بدترین اثرات مرتب کرتا ہے۔دنیا بھر میں کسی بھی قدرتی آفت  میں خواتین کی اموات کا تناسب مردوں کی نسبت 14 فیصد زیادہ ہے

شبینہ فراز نےبتایا کہ ایسے حالات میں دوردراز کے علاقوں میں خواتین پر کیا گزرتی ہے اور ان کے مسائل کیا ہیں یہ صرف کوئی خاتون رپورٹر ہی ان تک پہنچ کر ان کے مسائل سامنے لاسکتی ہے۔ کیونکہ بہت سے اندرون دیہی علاقوں میں مرد اپنی خواتین کو پردے میں رکھتے ہیں۔ اور انھیں صرف خواتین سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

انھوں نے مختلف آفات کے حوالے سے بتایا کہ ہمارے پاس کسی قسم کا ڈیٹا  موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر ہم آنے والے مسائل سے نبرد آزما ہوسکتا اور خواتین صحافیوں کے اس کوہارٹ کی تشکیل دراصل اسی وجہ سے میرا ایک دیرینہ خواب تھا جو آج شرمندہ تعبیر ہوا۔

ڈائریکٹر کلائیمیٹ ایکشن سینٹر یاسر حسین نے اس موقع پر کچھ اس طرح اظہار خیال کیا کہ وہ تین دہائیوں سے تحفظ ماحول کے لیے کام کررہے ہیں، انھوں نے یہ بھی معلومات بہم پہنچائیں کہ ہم دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک میں شامل ہیں لیکن ہم کوالٹی آف لائف میں سب سے نیچے ہیں،پاکستان 173 ممالک میں 169 نمبر پر ہے جس میں سے 67% آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے۔

انھوں نےکراچی ایکشن پلان کے حوالے سے بتایا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ اس پلان میں ہماری تجاویز کو بھی اہمیت دی جائے، جن میں ہیٹ ویو،گرین سٹی،سولڈ ویسٹ اور اس جیسے ماحولیاتی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔

سینئر صحافی کمال صدیقی نے خواتین کوہارٹ کی تشکیل کو خوش آئند اقدام قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تین دہائی قبل تک ماحولیات کی کوئی بیٹ نہیں تھی۔ اور ہمارے پاس 1991 میں خواتین رپورٹر بہت کم تھیں،اور جو تھیں وہ زیادہ تر فیشن وغیرہ پہ کام کرتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ایشوز کو کم رپورٹ کرتے ہیں۔ بلکہ انھیں کور ہی نہیں کرتے۔یہی نہیں ہم ماحولیاتی مسائل اور ان سے متعلق تبدیلیوں کو بھی رپورٹ نہیں کرتے۔کیونکہ ہر رپورٹر یہ کام نہیں کرسکتا اس کے لئے ماحول سے ہم آہنگی ضروری ہے۔

پاکستان میں ماحول کے بگاڑ کا سب سے زیادہ اثر خواتین پر ہوتا ہے اورجب بات خواتین کے مسائل کی آتی ہے تو اسے خواتین کو ہی رپورٹ کرنا چاہئیے کیوں کہ وہ ان کے ساتھ گھل مل کر بہتر طریقے سے معلومات حاصل کر سکتی ہیں۔

اخبار کے ساتھ ساتھ اب ڈیجیٹل میڈیا کی بھی ضرورت ہے اور اس سے بھی زیادہ سوشل میڈیا پر ان خبروں کو آنا چاہئے۔آخر میں انھوں نے کہا کہ صحافی ایکٹیوسٹ نہیں ہوتا وہ خبر سے جراحی نہیں کرتا بلکہ وہ مسائل کو رپورٹ کرتا ہے۔انہوں نے اس فیمیل کوہارٹ کی تشکیل کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ آج اتنی بڑی تعداد میں خواتین کی یہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یقینا”کلائمیٹ چینج رپورٹنگ“ کے منظر نامے میں بہت بہترتبدیلی رونما ہوگی۔

پروگرام میں موجود مہمانوں نے سب سے زیادہ توجہ ماحولیاتی مسائل کے ڈیٹا کی جانب کرائ جو کہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ بہت سے ایسے صحت اور ماحول کے مسائل ہیں جو ہمارے ملک کو درپیش ہیں لیکن ان کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں تاکہ اس سے اندازہ ہو کہ پہلے کے مقابلے میں مسائل میں اضافہ ہوا ہے یا کمی اور اسی لیۓ ماحولیاتی تبدیلیوں پر بہتر رپورٹنگ کے لیے سائنس اور تکنیک دونوں کا فہم ضروری ہے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ خواتین کو آگے آنا چاہیے کیونکہ خواتین مسائل کو ایک گہری اور مختلف نظر سے دیکھتی ہیں۔

کوہارٹ کے شرکا ء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مختلف ادارے جن میں،یو این ڈی پی، سی 40 سٹیز، اربن یونٹس  اور مئیر آفس  جیسے ادارے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ماحول کو محفوظ بنانے کی پالیسیز پر کام کر رہے ہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link