NH

تعلیمی درسگاہیں اور نادانی کا طوق۔ | نذر حافی

آپ خود یہ فیصلہ کریں کہ زیادہ خطرناک واقعہ کون سا ہے؟ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں کے بیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر  شیر علی کا یا  ڈیره اسماعیل خان میں  مدرسه جامعه اسلامیه فلاح البنات کی تین طالبات کا؟  شیر علی گزشتہ  سترہ  سال سے درس وتدریس کے شعبے سے وابسته هیں۔ اس دِن کو تاریخ پاکستان میں کیا نام دیا جانا چاہیے جس روز  انہوں نے پولیس اور ضلعی انتظامیه کی موجودگی میں   اسٹامپ پیپر پر اپنے تعلیمی نظریات بیان کرنے  پر معافی مانگی؟ ۔ہوا کچھ یوں کہ بیالوجی کی کلاس میں نظریه ارتقا  اور پھر ساتھ هی طبّی طور پر   مذکر اور مونث  یعنی مرد اور عورت کے ایک جیسا هونے پر اُن کے لیکچرز  پر علمائے کرام کی  طرف سے انهیں اور اُن کے خاندان کو شدید سوشل بائیکاٹ اور خوف و هراس کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد  60 سے زائد علماء، علاقه عمائدین اور ضلعی انتظامیه کی موجودگی میں انهوں  نے ایک بیان حلفی پر دستخط کر کے علماء سے اپنے نظریات سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ ان کی طرف سے اپنے علمی نظریات سے  اس طرح کی دستبرداری کا یہ اعلان  کوئی  فرعون کے زمانے کی بات نہیں بلکہ اسی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد کی  داستان ہے۔

دوسری طرف ڈیره اسماعیل خان میں  مدرسه جامعه اسلامیه فلاح البنات کی تین طالبات   رضیه حنیفه، عائشه نعمان اور عمره امان نے ٹیویشن پڑھانے والی  خاتون ٹیچر  صفوره بی بی کو گلے پر چھریاں پھیر کر ذبح کر دیا۔ عمیمه نے ملزمان خواتین کو بتایا  تھا که اس نے خواب دیکھا که صفوره بی بی نے توهین مذهب کی هے۔

بلوچستان میں  تُربت کا یہ واقعہ  بھی کچھ کم خطرناک نہیں ہے کہ جب  ’توهینِ مذهب‘ کے الزام میں استاد کو قتل کر دیا گیا، وقوعہ سے  کچھ روز قبل سینٹر کے کچھ طالب علموں نے علما سے شکایت کی تھی که عبدالرؤف نے کلاس روم میں پڑھاتے هوئے توهین مذهب کی هے۔ عبدالرؤف کا اصرار تھا که انهوں نے گستاخی نهیں کی لیکن اس کے باوجود وه معافی مانگنے کے لیے تیا رتھے۔انهیں  ایک   مقامی مدرسے میں علمائے کرام نے معافی مانگنے کیلئے بلایا جس پر وه مدرسے کی طرف معافی مانگنے چل پڑے۔  راستے میں مدرسے  سے کوئی 50 یا 100 گز کے فاصلے پر ایک قبرستان کے قریب پهلے سے تاک میں بیٹھے نامعلوم نقاب پوش افراد نے ان پر گولیاں چلائیں۔اسی طرح ملتان میں یونیورسٹی کے  انگلش کے پروفیسر جنید حفیظ  پر بلاسفیمی کا  الزام لگنے کے بعد حکومت نے  انهیں کسی قاتلانه حملے سے بچانے کیلئے  قیده تنهائی میں رکھا ،  کوئی وکیل ان کا مقدمه لڑنے کو تیار نهیں ہوا چونکه  ان کے پهلے وکیل راشد رحمٰن کو قتل کر دیا گیا تھا۔ان پر توهین مذهب  کا مقدمه 13 مارچ 2013  کو  درج کیا گیا تھا۔ سکیورٹی خدشات کے باعث مقدمے کی سماعت  سنٹرل جیل میں هی هوتی رهی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

توہین مذہب کا الزام تو پاکستان میں بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جیسا کہ بهاولپور  میں ایس ای کالج میں سربراه شعبه انگریزی کو طالب علم نے  ایک پروگرام میں طالبات کو مدعو کرنے کی وجه سے ے رحمی  سے چھریاں مار کر  قتل کر دیا،  طالب علم کے مطابق یه ایک غیر اسلامی فعل تھا۔صورتحال اتنی سنگین هے که  طالب علموں کی اگر کسی  شِدّت پسند تنظیم کے جلسے جلوس میں شرکت پر  غیر حاضری لگائی جائے  تو طالب علم اسے بھی توهین مذهب کهتے هیں اور موقع ملے تو اُستاد کو قتل کر دیتے هیں۔ ایسا ہی کچھ چارسده  میں ہوا کہ جب  شبقدر میں سیکنڈ ائیر کے طالب علم نے توهین رسالت کا الزام لگا کر پرنسپل کو قتل کردیا، طالب علم کا تعلق  تحریک لبیک یارسول الله  سے هے، وه  اسلام آباد دھرنے میں شرکت کیلئے کلاس سے غیرحاضر رها تھا، جس پر پرنسپل نے اس  سے باز پرس کی تھی  ۔

تعلیمی اداروں کا یه ماحول استادوں کے ساتھ ساتھ طلبا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا هے۔ عبد الولی خان یونیورسٹی کا وہ منظر کون بھول سکتاہے کہ جس میں  طلبه  خود هی مدعی ‘جج اور جلاد بن گئے ۔ توهین مذهب کا الزام لگا کر سینکڑوں مشتعل طلباءنے هاسٹل میں گھس کر طالبعلم مشال خان کو قتل کیا‘درجنوں طلباء نے اس کا پیچھا کرکے اسے هاسٹل میں قابوکرلیا اور کمرے کے دروزاے توڑ کر لاٹھیوں ،مکوں اور فائرنگ سے اسے جان سے مار ڈالا۔ مشتعل  طلبااس کی لاش کو جلانا چاهتے تھے ، پولیس نے پرائیویٹ گاڑی میں لاش کو منتقل کیا اور لاش کوجلانے سے بچایا۔  یونیورسٹیوں  کے هاسٹلز میں کالعدم تنظیموں  کے کارندوں کی رهائش اور  نیٹ ورکس کی موجود گی بھی  کوئی ڈھکی چھپی بات نهیں۔   یه  ماحول صرف کلاس رومز تک محدود نهیں بلکه تعلیمی اداروں کے هاسٹلز  کا بھی یهی ماحول هے۔شدّت پسندی اب دینی  مدارس سے بعض جامعات میں بھی  منتقل هو چکی هے۔ هم نے اختصار کے پیشِ نظر  بطورِ نمونه فقط چند ایک واقعات کی یاد دہانی کرائی ہے۔

اب یہ کون سوچے کہ ہمیں کون کس طرف زبردستی کھینچ کر  لے جا رہا ہے؟۔ ملک کے چاروں صوبوں میں ایسے تعلیمی ادارے کثرت سے موجود ہیں کہ جہاں  کلاس کے اندر استادوں کو اس طرح سے سبق  پڑھانا پڑتاهے که گویا وه کوئی سکول ٹیچر یا پروفیسر هونے کے بجائے  کسی مذهبی مسلک کے خطیب یا مسجد کے امام جماعت هوں۔ جس اُستاد پر توهین مذهب کا الزام لگ جائے ، اُس کامقدمه بھی کوئی وکیل نهیں لڑتا اور   ایسا  بھی هوتا هے که اُستادوں کو معافی مانگنے سے پهلے هی قتل کر دیا جاتا هے۔  اگر ایسا استاد قتل نہ ہو سکے تو اس کا   وکیل بھی اپنی زندگی سے هاتھ دھو بیٹھتا هے۔ہمارے  ملک میں تعلیم کی دیوی ایسی زنجیروں سے جکڑی ہوئی ہے کہ جنہیں ثواب  کہا جاتا ہے۔ لاعلمی اور نادانی   کا یہ طوق اس لئے ہمیں گراں نہیں گزرتا چونکہ ہم نے اس طوق کو عبادت سمجھ کر پہن رکھا ہے۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link