تبصرہ کتاب،”منتخب افسانے”۔ | تبصرہ نگار: ممتاز شیریں۔دوحہ۔قطر
پریس فار پیس پبلیکیشنز کی طرف سے شائع ہونے والا شاہکار “منتخب افسانے” کی اعزازیہ کاپی مجھے قطر موصول ہوگئی۔ 2023 میں جب پریس فار پیس پبلیکیشنز نے عالمی مقابلہ افسانہ نگاری کا اعلان کیا تو نجانے کیا جی میں آئی اور ہم نے بھی اپنا ایک افسانہ انہیں روانہ کردیا۔ اور شومئی قسمت کہ ہمارا افسانہ بھی عالمی افسانہ نگاری کے مقابلے میں منتخب ہو کر شاملِ کتاب ہوا۔
کُو بَہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا افسانہ عالمی افسانہ نگاری میں منتخب ہو کر یہاں تک پہنچ جائے گا۔ اور اس کے لیے میں سب سے پہلے پریس فار پیس پبلیکشنز کے ڈائریکٹر پروفیسر ظفر اقبال صاحب کی شکر گزار ہوں ۔بلاشبہ وہ گڈری میں سے لعل نکالنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں ورنہ موافق ہوا
ماحول، سہارا دینے کو کوئی دیوار اور کندھے پر ایک عدد تھپکی دینے والا ہاتھ میسر نہیں ہو تو واقعہ یہ ہے کہ کچھ وقت بعد زرخیز ترین زمین بھی بنجر بن جاتی ہے ۔
اور اگر موافق ہوا، ماحول ،ستائش بھرا ایک جملہ اور شانے پر ایک تھپکی میسر آجائے تو کچھ وقت بعد بنجر بیابان بھی زرخیز ہریالی بھرا منظر پیش کرنے لگتا ہے. ہم انسان بھی زمین کی خاصیت سے کچھ خاص مختلف نہیں ہوتے ہیں۔
ہم مختلف خداداد صلاحیتیں لے کر پیدا ضرور ہوتے ہیں مگر یہ صلاحیتیں پھلتی پھولتی تب ہی ہیں جب انہیں موافق ماحول میسر کیا جائے۔ وگرنہ کتنے ہی غالب و ارسطو، رازی و غزالی اور نیوٹن و پکاسو تمام تر خداداد صلاحیتیں رکھنے کے باوجود مصائب زندگانی، معاشرتی جبر اور غم روزگار میں گم ہوجاتے ہیں۔ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔
بیشمار ہیں جنہیں مناسب ماحول ،قدردان لوگ کبھی مل ہی نہ سکے ، لاتعداد ہیں جن کے فن کو بے قدری زمانہ نے کچل ڈالا اور انگنت ہیں جنہیں ان کی اصل شخصیت سے بھٹکا کر کچھ اور بننے پر مجبور کردیا گیا۔مثلاً پیدا اقبال و میر کی صلاحیت و رحجان لے کر ہوئے تھے مگر معاشرے کی بے قدری ،افتاد زمانہ اور ایک تھپکی دینے والا ہاتھ میسر نہ آنے کی وجہ سے صلاحتیں اپنے اندر آپ ہی دم توڑ گئیں
حقیقت تو یہ ہے کہ۔۔
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اور اس وقت میں ظفر اقبال صاحب جس طرح لکھنے والوں کا خیال رکھتے ہیں انہیں ڈھونڈ کر ان کی حوصلہ افزائی کرکے تراش خراش کر نک سک سے سنوار کر اپنے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔۔ان سے میری ملاقات تو نہیں ہوئی ہے لیکن مختلف سوشل میڈیائی زرائع سے اردو ادب ،افسانہ نگاری اور کتابوں کی اشاعت کے لیے ان کی لگن و محنت دیکھ کر مجھے مشہور شاعر و ادیب آل احمد سرور کی کہی ہوئی ایک نظم ” مرد درویش” کے چند اشعار یاد آتے ہیں ۔
زمانہ جس کی تلاش میں تھا یہی ہے وہ مرد دانا
نگاہ جس کی ہے عارفانہ، مزاج جس کا ہے قلندرانا
وہ جس کے ایثار بیکراں کا ہے معترف آج زمانہ
جلال بھی ہے ،جمال بھی ہے، یہ شخصیت کا کمال بھی ہے
پریس فار پیس تین ممالک سے کتب شائع کرنے والا اشاعتی ادارہ ہے ۔اس ادارے کی طرف سے “منتخب افسانے ” کے بھی پاکستان و انڈیا سے دو ایڈیشن شائع کیے گئے ہیں ۔ کتاب کا سرورق، کتاب کا انتساب، کتاب کا پیش لفظ اور کتاب کے اندر شامل کے گئے تمام افسانے نگینے میں موتی کی طرح جُڑے ہوئے ہیں۔
چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا افسانے کی یہ کتاب آہستہ آہستہ
” منتخب افسانے “پڑھنے والوں کو میرا مشورہ ہے کہ اپنے دل کو تھام کر رکھیں اور سب کام کاج ختم کرنے کے بعد اس کتاب کو ہاتھ میں اٹھائیں ۔
کیونکہ اس کے ابتدائی صفحات ہی قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور پھر اختتام کب ہو اندازہ ہی نہیں ہوپاتا ہے۔۔عرض ناشر میں قرۃ العین عینی دلچسپ و دلفریب انداز میں قارئین کو کتاب کو آگے پڑھنے کے لیے اپنے الفاظ کے زیر اثر لاتی ہیں اور اس سحر میں جکڑا قاری صفحے پر صفحہ پلٹتا چلا جاتا ہے ۔ ہر افسانہ منفرد ہے اور ہر عنوان جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ “منتخب افسانے “میں مجموعی طور پر 23, افسانے شامل کئیے گئے ہیں صفحات کی تعداد 198 ہیں اور ہر افسانے کا عنوان خود اپنے اندر ایک افسانہ سموئے ہوئے ہے۔
کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں
کبھی گم ہے کتاب آنکھوں میں
ایک انگریز مصنف کا قول ہے کہ۔۔۔
” کسی عمدہ کتاب کو جب میں پہلی بار پڑھتا ہوں
تو مجھے ایک نیا دوست ملنے کے برابر خوشی ہوتی ہے
اور جب پڑھی ہوئی کتاب کو دوبارہ پڑھتا ہوں
تو کسی دیرینہ دوست سے ملنے کا لطف آتا ہے
(آلیور گولڈ اسمتھ)
پہلا افسانہ گوجرانوالہ سے اقرا یانس صاحبہ کا شمع و قیدی ہے۔رات ،اندھیرا ، آگہی ،روشنی اور فکر کے دئیے جلاتی یہ کہانی ہر باشعور انسان کے اندر کی کہانی لگی۔
ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا
بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ
دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا۔
” اَن ” سید عاطف کاظمی چکوال کی دل کو چھوتی ہوئی معاشرتی و طبقاتی فرق کو اجاگر کرتی آج کے دور کا ایک المیہ اور کڑوا سچ ۔
کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے ؟
آ جاؤ گے اِک روز جو حالات کی زد میں
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
تیسرا افسانہ ڈاکٹر محمد شعیب خان کا ٹیکسلا ۔پاکستان سے لکھا گیا ” ہجرت ” ہے ۔ بلاشبہ کتنی عجیب بات ہے رات کو گناہ اور عبادت دونوں کے لئے یکساں طور پر موزوں سمجھا جاتا ہے، ایک کو یہ مان کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔۔ دوسرے کو یہ گمان کہ اس وقت خدا سو رہا ہوگا۔۔۔گناہ اور بدی چونکہ آپ کے اپنے پاؤں کے کلہاڑے اور اپنے ہاتھوں کے جمع کردہ جہنم کے انگارے ہیں۔ اس لئے آپ کو زخم کی ٹیس یا آگ کی تپش محسوس نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر محمد شعیب صاحب کی ” ہجرت ” میں بھی ایک اجلے تن کے ساتھ میلے من والا یہ کردار اپنے پے درپے ادا کیے گئے عمروں اور حج میں طواف کے ہر ہر چکر کا شمار رکھنے اور اللہ سے اپنے تئیں خفیہ لین دین رکھنے والا ایک گھناؤنا کردار ہے جو کہ پوری بستی کے پاپیوں پر اکیلے بھاری پڑ جاتا ہے ۔
یہ کیسی ہجرتیں ہیں موسموں میں
پرندے بھی نہیں ٹھہرتے گھونسلوں میں
“ادھوری تخلیق” کو بھارت سے عظمت اقبال کے قلم نے لکھا ہے۔۔ بےشک خدا کے سوا ہر تخلیق ادھوری ہے
منظر بھوپالی کے الفاظ میں
کوئی تخلیق ہو خون جگر سے جنم لیتی ہے
کہانی لکھ نہیں سکتے کہانی مانگنے والے ۔
پڑوسی ملک بھارت سے ہی ” احمد نعیم صاحب” کی “انجام کی تلاش ” شامل اشاعت کی گئی ہے ۔یہ دنیا مداری کا ایک تماشا ہی تو ہے ۔برسوں سے یہ کھیل جاری ہے اور شائد برسوں تک جاری رہے گا ۔جب تک تماش بین جمع ہوتے رہیں گے مداری اپنی ڈگڈگی یونہی بجاتا رہے گا سانپ اور نیولے کی لڑائی کبھی نہیں ہوگی کیونکہ یہ تو صرف مداریوں کی تجوری بھرنے کی ایک چال ہے ۔ وقت اور موسم کے ساتھ صرف رنگ تبدیل ہوتے رہیں گے۔
چھن چھن چھن چھن ناچے دنیا
جیسے مداری چاہے نچائے
کتے عبدالرحمٰن اختر بھارت سے لیکر آئے ہیں ۔
ہندو اور مسلم دو نظریاتی قوم پر لکھا گیا افسانہ ہے ۔” منتخب افسانے” میں مرتبین نے مزکورہ بالا تبصرے کیے گئے افسانوں کے ساتھ مزید 17, افسانے شامل کئیے ہیں ۔ ارادہ تمام افسانوں پر تبصرے کا تھا لیکن تحریر کی طوالت اور وقت کی کمی کے باعث مختصراً ابتدائی صرف چھ افسانوں پر تبصرہ کر پائی ہوں لیکن کتاب میں شامل تمام افسانے ہی اپنی مثال آپ ہیں۔
منتخب افسانے اپنے کینوس پر بہت سے موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ہر افسانہ تجسس و تحیر سے بھرپور ہے۔جو قاری کو آغاز سے انجام تک اپنی گرفت میں جکڑے رکھتا ہے۔
میرا لکھا ہوا افسانہ ” امید کی موت ” بھی حقیقت پر مبنی ایک تلخ فسانہ ہے جس کا سامنا کم و بیش ہجرت کے وقت ہر کسی کے حصے میں آیا۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔
منتخب افسانے “اب آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اسے پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھوائیں ۔
کتاب “منتخب افسانے” کو پڑھتے ہوئے میں بہت سارے بہترین مکالمے اور جملوں کو انڈر لائن کرتی گئی کہ جانتی ہوں کسی دن چائے کے مگ کے ساتھ ان بہترین افسانوں کو دوبارہ پڑھنے بیٹھ جاؤں گی اس لیے کتاب کو ختم کر لینے کے باوجود شیلف پر کتابوں کے درمیان نہیں بلکہ اپنے بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر سامنے ہی رکھ لیا ہے۔
میں پریس فار پیس کے پروفیسر ظفر اقبال صاحب اور ان کی پوری ٹیم کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں جنہوں نے پوری دنیا سے بہترین افسانوں کا مقابلہ منعقد کرکے اپنے قارئین کو یہ شاہکار پڑھنے کا اعزاز بخشا۔ اب “منتخب افسانے” آپ کے ہاتھوں میں ہے اسے خریدیں، پڑھیں ۔ پڑھنے والے قارئین جب کتاب خریدتے ہیں تو لکھاری کو اُس کی محنت کا پھل مل جاتا ہے میں سمجھتی ہوں کہ کتاب کی ضرورت گزرے کل کے مقابلے میں آج زیادہ ہے
لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمایا کیجئے کہ یہ آپ کے لئے لکھتے ہیں
اگر آپ ہی کتاب خریدنا اور پڑھنا بند کر دیں گے تو کوئی کیوں لکھے گا اور لکھنے کا یہ فن ہمیشہ کے لئے دفن ہوجائے گا
کتاب خریدیں کہ لکھاری زندہ رہے
کتاب پڑھیں کہ اخلاقیات زندہ رہیں
کتاب میں شامل تمام افسانہ نگاروں کو میری طرف سے بہت مبارکباد کے انہوں نے اردو ادب کو بہترین افسانے دئیے ۔امید ہے کہ اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں اور آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا ۔
میری دعا ہے کہ۔۔۔
کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ،آخری سیڑھی پر آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو