NH

غزہ, مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا. | تحریر: نذر حافی

اُردو ادب میں خطوط نویسی  کا بڑا مقام ہے۔اصناف نگارش میں خطوط نویسی سے زیادہ مقبول شاید ہی کوئی دوسری صنف ہو۔کچھ خطوط ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی نوعیت کے بھی  ہوتے ہیں۔ایرانی  سُپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی سیاست و بصیرت اپنی جگہ تاہم اُن کے ادبی ذوق اور فصاحت و بلاغت کا بھی کوئی ثانی نہیں۔

ہم نے گزشتہ روز    ۲۹ مئی ۲۰۲۴  کو  ایرانی سُپریم لیڈر کا امریکی جوانوں کے نام ایک تازہ خط دیکھا۔  امریکی طلبا کے نام ایران کے سُپریم لیڈر کا یہ  تازہ خط ممکن ہے آپ کی نظروں سے بھی گزرا ہو ۔یہ خط  بظاہر امریکی طلبا کے نام  ہے لیکن مجھے اس خط  کے ادبی یا سیاسی مقام کے بجائے ، اس کے فرض شناسی کے پہلو نے  اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے غیرمسلموں کے بارے میں اپنی فرض شناسی کا کبھی جائزہ ہی نہیں لیا۔ غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے ، انہیں دبا کر رکھنے، ان کے  کے ساتھ نفرت، جنگ اور جہاد کے علاوہ کبھی  کچھ اور  ہمیں سوجھتا بھی نہیں۔ خصوصاً   یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی کبھی  نہیں  آیا کہ اسلام کے دائرے سے باہر بسنے والے غیر مسلموں کے بھی مسلمانوں پر کچھ حقوق ہو سکتے ہیں؟    تلخ حقیقت یہ ہے کہ حقیقتِ حال ہماری سوچ سے مختلف ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق حق النّاس کا ادا کرنا حکم الہی ہے۔ “ناس” میں مسلمان و غیر مسلمان، سب شامل ہیں۔ غیر مسلموں کا مسلمانوں پر ایک عظیم حق یہ ہے کہ مسلمان، دینِ اسلام کی درست تصویر اور حقیقی تعلیمات غیرمسلم بھائیوں تک پہنچائیں۔بنی آدم ہونے کے ناتے  ہمیں غیر مسلم انسانوں کو بھی اپنا بھائی سمجھنا چاہیے اور اُنہیں اسلام ہراسی سے نجات دینے کی تگ و دو کرنی چاہیے۔

اس سے پہلے ۲۰۱۵  میں بھی ایران کے سُپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مغربی ممالک کے جوانوں کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا۔  یہ خط اُس وقت لکھا گیا تھا جب داعشیوں کے حملے سے  پیرس میں ایک سو کے لگ بھگ غیر مسلم افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اُس حساس لمحے میں لکھے گئے اس خط کے کچھ نکات ملاحظہ فرمائیے

 آپ نے مغربی جوانوں سے کہا کہ  ہم اس غم کی گھڑی میں آپ کے دکھ میں شریک ہیں۔گزشتہ  کئی سالوں سے عراق، شام، یمن اور افغانستان میں اسی طرح بے گناہ انسانوں کو مارا جا رہا ہے۔

آپ نے اپنے خط میں جوانوں سے کہا کہ  ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرنا چاہیے اور ایسے واقعات کے خلاف مل کر چارہ جائی کرنی چاہیے۔ آپ نے مغربی جوانوں کو  یہ پیغام بھی دیا تھا کہ ایسے واقعات  فرانس میں ہوں  یا  پھر کہیں فلسطین ،عراق ،لبنان اور شام میں، ہم مسلمان ایسے  سانحات کے مرتکب لوگوں  سے  سو فیصد بیزار اور سخت متنفر ہیں۔

آپ نے اس خط میں مغربی جوانوں پر واضح کیا تھا کہ  آپ نوجوان ، ان دہشت گردوں کی ساری کڑیاں ملا کر ددیکھیں، یہ تکفیری دہشت گرد ہمیشہ مغرب کی بڑی طاقتوں اور امریکہ کے سیاسی اتحادی رہے ہیں۔  مغربی طاقتیں اور امریکہ ان بے شعور اور سیاسی طور پر   پسماندہ تکفیریوں  کی تو سرپرستی کرتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریت کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ان طاقتوں اور امریکہ کا دوہرا معیار آپ جوانوں پر عیاں ہونا چاہیے۔

مغربی طاقتوں اور امریکہ کے دوہرے معیار کی دوسری شکل  اسرائیل کا وجود  ہے۔آج فلسطینی اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اسرائیلی  حکومت،  بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کسی طرح کی  مزاحمت یا سرزنش کا سامنا کئے بغیر، روزانہ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار ،  اور ان کے باغات اور کھیتیوں کو تباہ کرتی ہے یہاں تک کہ انھیں کھیتوں کی فصلیں کاٹنے تک کی مہلت نہیں دی جاتی۔

 اے عزیز جوانو! مجھےامید ہے کہ آپ جھوٹ سے آلودہ اس ذہنیت کو بدلیں گے

میرا  آپ جوانوں سے تقاضا ہے کہ آپ  مسائل کی  درست شناخت اور معاملات میں تحقیق و  غور و خوض نیز ماضی کے  تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمِ اسلام  کے ساتھ عزت و وقار اور  درست  باہمی اشتراک  کی بنیاد رکھنے کی تیاری کریں۔۔۔۔

خامنہ ای ڈاٹ آئی آر نامی ویب سائٹ کے مطابق ایران کے سُپریم لیڈر نے امریکی طلبا کے نام حالیہ دنوں میں ایک تازہ خط لکھا ہے۔ یہ خط ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی انسانی اقدار کی بقا، عدل و انصاف، مظلوموں کی حمایت اور  انسانی ہمدردی کے لئے آواز بلند کرے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے غیر مسلم کا شکریہ ادا کریں، اُس کی حوصلہ افزائی کریں اور اُس کی زحمات و خدمات کی قدردانی کریں۔ غزہ کے مظلومین کی حمایت کرنے پر امریکہ کے  طلبا  کا  شکریہ ادا کرنا جہاں پر بطورِ انسان ہماری اخلاقی ذمہ داری ہےوہیں پر  بطورِ مسلمان ہماری گردنوں پر غیر مسلموں  کا حق بھی ہے۔

اس تازہ خط کے متن پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو   اس خط میں ایران کے سُریم لیڈر نے  غزہ کے حامی امریکی اسٹوڈنٹس کو ایک بہت بڑا کریڈٹ دیا ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ ”  اس وقت  تاریخ اپنا ورق پلٹ رہی ہے اور آپ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے  ہیں۔” آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ  آج مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ  انہی امریکی اسٹوڈنٹس نے تشکیل دیا ہے اور ان امریکی  طلبا نے  اپنی صیہیون نواز امریکی  حکومت کے بے رحمانہ دباؤ کے باوجودایک شرافت مندانہ جدوجہد شروع کی ہے۔”

یہ خط واضح کر رہا ہے کہ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہونے کیلئے مسلمان ہونا ضروری نہیں۔تاریخ آپ کے بارے میں آپ  کے نام، دین، اور ملک کی بنیاد پر  کوئی فیصلہ نہیں سناتی بلکہ تاریخ تو فقط یہ رقم کرتی ہے کہ فلاں تاریخی موڑ پر کون تاریخ کی درست سمت میں کھڑا تھا۔۶۱ ھجری میں حُر ریاحی نے اپنا نام، ملک یا دین کچھ بھی نہیں بدلا تھا، صرف اپنی سمت تبدیل کی تھی۔ممکن ہے ہم نام کے مسلمان ہوں لیکن تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی غیر مسلم ہو لیکن تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہو۔

پس! ہمیں اپنے نام، ادیان اور ممالک کے بجائے اپنی سمت دیکھنے چاہیے کہ ہم تاریخ میں اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں اور ہم تاریخ میں  کس سمت میں کھڑے ہیں۔ دیکھنا  یہ ہے کہ  امریکہ و یورپ میں غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلبا تو تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں لیکن کیا ہماری سمت بھی درست ہے؟

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link