کراچی شہر کا شدید گرم موسم اور نویں دسویں جماعت کے امتحانی مراکز میں بدترین انتظامات ۔
کراچی ( ارشد قریشی، ہم سماج پاکستان ) گزشتہ دنوں کراچی میں نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات کا آغاز ہوا کراچی ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے جن سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو امتحانی مرکز بنایا گیا ہے ان کے بدتر حالات دیکھے جا سکتے ہیں ،محمود آباد، ڈرگ روڈ، شاہ فیصل کالونی جیکب لائن، ملیر، لانڈھی ، کورنگی ، ماڈل کالونی اور بہت سے دوسرے علاقوں میں ایسے سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو امتحانی مرکز بنایا گیا ہے جن میں نہ پنکھے ہیں نہ پینے کا پانی ہے نہ بیٹھنے کے لیے کرسیاں ہیں نہ کسی اسٹینڈ بائی جرنیٹر کا انتظام ہے ۔ ملیر کے ایک امتحانی مرکز میں مقامی ڈیکوریشن سروس سے کرسیاں لے کر کلاسوں میں رکھی گئی ہیں۔ کئی کلاسوں میں پنکھے تو کجا بجلی کے بورڈ تک موجود نہیں ہیں دعوے کیے جا رہے ہیں کہ کے الیکٹرک کی جانب سے امتحانی مراکز والے علاقوں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ کیا گیا ہے جہاں بجلی ہی نہیں ہے وہاں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے اعلان سے کوئی فائدہ نہیں۔
ارباب اختیار ایک ڈیکوریشن سروس کی کرسی پرمحض پانچ منٹ بیٹھ کر ایک صفحے کی کوئی درخواست لکھیں تو انہیں احساس ہوگا کہ کتنا مشکل کام ہے ، یہ طلبہ جنہیں قوم کا مستقبل اور معمار کہا جاتا ہے انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح عمارتوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔
کراچی میں زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ دلاتے ہیں اور پرائیویٹ اسکول بھی جو رویہ اختیار کرتے ہیں وہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔روز کوئی نہ کوئی کلر ڈے منانا ، روز کوئی نہ کوئی پروگرام کا انعقاد کرنا، اسٹیشنری کی لمبی لمبی فہرست تھما دینا جس میں فوٹو کاپی کے دو دو پیکٹ ، درجنوں پین، پینسلیں،ربر، مختلف کلر کے پیپرز ، کسی خصوصی پروگرام کے لیے خصوصی لباس ۔ کئی نجی اسکولوں کی جانب سے نویں جماعت کی انرولمنٹ اور امتحانی فیس بھی زائد وصول کی گئی ہے جو فیس کراچی تعلیمی بورڈ کے ویب سائٹ پر درج ہیں اس سے ڈھائی سے تین ہزار زائد فیس وصول کی گئی ہے ۔ لیکن ان اسکولوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ بھاری داخلہ فیس کے بعد اسٹیشنری کی مد میں اتنا پیسہ اور دیگر اخراجات والدین اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ ان کے بچے پرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں اس کے باوجود انہیں سال بھر کی تعلیم کے بعد امتحان دینے کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں ۔
مجھے تو حیرت ہے کہ امتحانی مراکز بنانے سے پہلے کیا کراچی تعلیمی بورڈ کی ٹیمیں ان عمارتوں کا سروے نہیں کرتیں نہیں کرتیں تو کیوں نہیں کرتیں اور اگر کرتی ہیں تو پھر کیوں ایسے اسکولوں کو امتحانی مراکز بنایا جاتا ہے جہاں بیٹھنے کو کرسی تک نہیں ، اور اگر کسی اسکول کو امتحانی مرکز بناتے ہوئے پابند کیا جاتا ہے کہ بچوں کو ڈیسک، پنکھے ، پانی جیسی سہولت فراہم کی جائیں تو کیا پلٹ کر بورڈ آفس کی ٹیمیں دیکھتی ہیں کہ بچوں کو سہولیات فراہم کی گئی ہیں کہ نہیں ۔
ذرا سوچیں یہ بچے ایسے امتحانی مراکز سے امتحانات دے کر نکلیں گے تو کیا تاثر لیں گے ، آپ ان کے زہنوں کی کس طرح کی آبیاری کر رہے ہیں۔ کیا سوچیں گے کہ ہم چاند کے مدار میں تو داخل ہوگئے لیکن تعلیمی مدار سے اب بھی بہت دور ہیں ۔
اس گرم موسم میں ضروری سہولیات کے بغیر جو بچے امتحان دے رہے ہیں ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو رہے ہیں ان کا پسینہ گرنے سے ان کی جوابی کاپیاں خراب ہو رہی ہیں جس سے انہیں نمبر کٹنے کی فکر کھائے جا رہی ہے ۔ آپ نے قوم کے مستقبل اور معماروں کو جو ماحول ہر روز تین گھنٹے کے لیے فراہم کیا ہے اس میں آپ کا تین منٹ گذارنا مشکل ہے۔
سوچتا ہوں کہ اگر ارباب اختیار اس شدید ترین گرم موسم میں بچوں کو امتحانی مراکز میں سہولیات فراہم نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ ایسا طریقہ کار بنائیں کے بچوں کے امتحانات ہی سرد موسم میں رکھے جائیں تاکہ اس اذیت سے تو نجات مل سکے۔