صفدر ھمدانی کے فنی اور تخلیقی سفر کی گولڈن جوبلی۔| تحریر: ظفر معین بلے جعفری

محترم صفدر ہمدانی ایک زندہ دل ادبی شخصیت ہی  نہیں ، ایک جیتی جاگتی محفل اور متحرک ادارہ بھی ہیں۔ ادب ، ثقافت،صحافت، براڈکاسٹنگ ، صداکاری ، تحقیق ، مرثیہ خوانی ، ریڈیو اکیڈمی کے استاد اورسفر نامہ نگاری کی دنیا میں انہوں نے جونام، مقام اور احترام کمایا ہے ،وہ ہماری  تاریخ کاایک تابناک باب ہے۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ادب ،ا بلاغیات  اور براڈ کاسٹنگ کے جن جن شعبوں میں محترم صفدر ہمدانی صاحب نے قدم رکھا، وہاں ایسے نقوش  ثبت کئے ہیں، جو ان شعبوں میں نئے آنے والوں کو نئی راہیں سُجھارہے ہیں ۔مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ محترم صفدر ہمدانی کا نام  اورکام ایسا ہے ، جس کے ذکر ِ خیر کےبغیر ہماری ابلاغیات ، نشریات اورمنقبت  نگاری کی  تاریخ مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔

 کہتے ہیں کہ ہرمرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتاہےاورہم محترم صفدر ہمدانی کی کامرانی کودیکھیں تو اس حقیقت کوتسلیم کئے بغیرکوئی چارہ نہیں کہ ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے پیچھے محض ان کی جیون ساتھی کاہاتھ نہیں بلکہ وہ سرتاپا کارفرمانظرآتی ہیں۔ اور ہمارے محترم صفدر ہمدانی صاحب کسی جھجھک کے بغیر برسر محفل اس حقیقت کے معترف بھی دکھائی دیتے ہیں ۔

دنیائے ادب و نشریات  میں  محترم صفدر ہمدانی اور محترمہ مہ پارہ صفدرکی جوڑی مشہور بھی ہے اور معروف و مقبول بھی۔ جیون بندھن میں بندھنے سے پہلے یہ مہ پارہ زیدی تھیں اور پی ٹی وی پر اسی نام سے انہوں  نے نیوز کاسٹر کی حیثیت  سے شہرت سمیٹی ۔دونوں نے 1979میں ایک دوسرے کاہاتھ تھام  کر اورشانے سے شانہ ملاکر اکٹھے سفر شروع کیاتو  مہ پارہ زیدی  مہ پارہ صفدر بن گئیں اور اب انہیں دنیااسی نام سے جانتی اور پہچانتی ہے  ۔یہ ان دونوں  کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں جیون ساتھی بھی انہی کی دنیاکا ملا۔اس  ادبی جوڑے کی خصوصیات اور پس منظر میں بھی بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔ دونوں کابُرج یعنی عقرب ایک ہی ہے۔ یہ دونوں نومبر کے مہینے میں لاہور میں پیداہوئے۔دونوں کو ادبی ذوق و شوق ورثے میں ملا ۔ صفدر ہمدانی صاحب کاذکرہوگا بعد میں ۔پہلے بات ہوجائےمحترمہ مہ پارہ صفدراور ان کےحسب نسب کی۔ ان کے والد محترم سید حسن عباس زیدی شاعر، ادیب اوراستاد تھے ۔جبکہ  ان کی والدہ ماجدہ سیدہ شمس الزھرہ نے سوزخوانی  میں نام اور مقام کمایا۔میڈم مہ پارہ صفدر نے انگریزی ادبیات میں ایم اے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ اوراسی دوران ریڈیو پاکستان پر یونیورسٹی پروگرامز میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔حوصلہ افزائی پرریڈیو پاکستان لاہور میں متعدد شعبوں میں پروگرام کیئے اور یہیں سے پاکستان ٹی وی لاہور مرکز پر نیوز کاسٹنگ کے لیئے منتخب ہو گئیں اور اس شعبے میں ابصار عبدالعلی اور عزیز الرحمٰن نے انکی رہنمائی کی ۔بعدازاں لاہور کے بعد وہ پی ٹی وی کی قومی نشریاتی اسکرین پر نیوز کاسٹر کی حیثیت سے جلوہ گرہوئیں ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب  پاکستان میں کوئی پرائیویٹ ٹی وی چینل متعارف نہیں ہواتھا ،لہذاملک بھر میں جلد ہی ان کاایک نام اور مقام بن گیا۔عالمی سطح پر اپنے پیشہ ورانہ جوہردکھانےکیلئے یہ جوڑا برطانیہ چلاگیا، جہاں یہ دونوں میاں بیوی بی بی سی اردو سروس سے منسلک ہوگئے۔ صفدر ھمدانی ٨٩ میں چار سال کے لیئے ماہر لسان کے طور پر ریڈیو جاپان گئے تو ٩٠ جنوری میں ماہ پارہ بی بی سی لندن کی اردو سروس سے وابستہ ہو گئیں جہاں نشریاتی ادارے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ مہ پارہ صفدر نے لندن یونیورسٹی سےوویمن اسٹڈیز میں ماسٹرکی ڈگری بھی لے لی ۔ جاپان سے ٩٢ میں صفدر ھمدانی جاپان سے لندن آکر بی بی سی سے وابستہ ہو گئے اوریہ جوڑا آگاہی کےاجالے پھیلاتارہا۔اس نامور جوڑے کاشعبہ ایک ہونے اورذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئیں ۔

صفدر ھمدانی نے جاپان کی وزارت خارجہ میں افسران کو ارود پڑھانے کا کام کیا اور اسی طرح برطانیہ کے سرکاری حکام کو بھی اردو پڑھاتے رہے

محترم صفدر ہمدانی صاحب  ایک قدآور ادبی شخصیت ہیں ۔ان کےقدو قامت کو دیکھنے کیلئے مجھے دونوں ہاتھوں سے اپنی ٹوپی سنبھالنی پڑتی ہے۔میں ان کے کام اورکلام سے فیض یاب تو ہوتارہاہوں لیکن اس کاناقدانہ جائزہ لینا میرا منصب نہیں۔انہوں نے جوکام کیا ہے ،وہ کوئی شخصیت تن ِتنہا کرہی نہیں سکتی۔حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ایک شخص بیک وقت کامیابی کےساتھ بہت سے راستوں پر سفر کیسے کرسکتا ہے؟اور انہوں نے یہ ہمیں کرکے دکھایاہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی شعبے میں کسی نےاہم کارنامے انجام دئیے ہوں اور دنیااُسے برگدکاپیڑ قراردینے پر مجبورہوتوایسی شخصیت کے زیرسایہ پودے پروان نہیں چڑھتے لیکن یہ بات محترم صفدر ہمدانی نے غلط ثابت کردی ہے وہ  ایک  ایسے بڑے باپ کے فرزند ِ ارجمندہیں، جنہوں نےبراڈ کاسٹنگ کی دنیامیں بھی صف ِ اول کی شخصیات کی امامت کااعزاز اپنے نام کیا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد ہواکے دوش پر جوپہلی آواز دور دور تک لوگوں تک پہنچی ،وہ ہمارے صفدر ہمدانی صاحب کے والد بزرگوار محترم مصطفیٰ ہمدانی ہی کی تھی ۔۱۳اور۱۴ اگست ۱۹۴۷کی درمیانی رات بارہ بجے انہوں نے ریڈیوپاکستان لاہور سے پاکستان کے قیام  اورغلامی سےآزادی کااعلان کیا تھا۔اسی کی بنیاد پر اپنے والد بزرگوار مصطفیٰ ہمدانی  کو محترم صفدر ہمدانی نےبڑے خوبصورت انداز میں سلامی دی ہے ۔

ہم مناتے ہیں جو یہ روز سعید
سچ تو یہ آزاد لوگوں کی ہے عید
قبر میں تا حشر صفدر اس کی نور
صبح ِ آزادی کی دی جس نے نوید

اس حقیقت سے انکار نہیں  کہ محترم مصطفی ہمدانی  براڈ کاسٹنگ  کے دنیا میں برگد کا ایک گھنا اور سایہ دار پیڑ تھے اور ایک ایسا پیڑ تھے ،جس کے نیچے بہت سے تن آور پیڑ پروان چڑھے اور ان میں ایک نام محترم صفدر ہمدانی کابھی ہے۔ وہ اپنے والد بزرگوار کے نقش ِ قدم پر چلےاوربراڈکاسٹنگ کی دنیا میں متعدد شاگرد پیدا کیئے۔ انہوں نے پانچ برس تک ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی میں نشریات کے طلبا کی تربیت کی اور اس دور میں ملک بھر میں ریڈیو پاکستان کے مراکز کے سربراہ انکے شاگرد رہے جن میں سے بڑی تعداد اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں

صفدر ھمدانی نے نشریات و صحافت ہی میں نہیں،گلشن ِ ادب  میں بھی رنگ جماتے،خوشبو لٹاتے اورفکروخیال کی روشنی سے اذہان و قلوب کو جھلملاتے نظرآرہے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توانائیوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان کاسفر تیز تر ہوگیا ہے ۔ بات ہورہی ہے محترم صفدر ہمدانی کی لیکن ان کامرتبہ جاننے کے لئے محترم مصطفیٰ ہمدانی کا مقام جانے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ادبی تنظیم قافلے کے پڑاو میں معروف ٹی وی کمپئیرطارق عزیز کو میرے والد گرامی سید فخرالدین بلے نے ٹی وی کا مصطفیٰ ہمدانی قراردیا تھا اور ان ریمارکس پر طارق عزیز نے کہا تھا کہ آپ کا یہ کہنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ جیسے ریڈیو پاکستان کی نشریات کےآغاز کا سہرا محترم مصطفیٰ ہمدانی کے سر ہے، بعینہ طارق عزیز نے پاکستان کی ٹی وی نشریات شروع کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا ۔ بلاشبہ محترم صفدر ہمدانی  برگد کے چھتنار پیڑ کے زیر سایہ پروان ضرور چڑھے ہیں لیکن اب خود ایک برگد کا چھتناراورتناور  پیڑ بنے ہوئے ہیں ۔ ان کے سائے میں ان گنت پودے پلے اور پروان چڑھے ہیں ۔ وہ اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کے قد بڑھتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ باصلاحیت نوجوانوں کی ہمت بندھاتے ہیں۔ ان کی فکری رہنمائی کرتے ہیں۔ انہیں ساتھ لے کر چلتے ہیں اور اپنے عالمی اخبار کے صفحات کو انہوں نے ان مقاصد کیلئے بھی وقف کررکھا ہے ۔ یہ پھل دار پیڑ اور اعلیٰ طرف انسان کی نشانی ہوتی ہےکہ وہ ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔محترم صفدر ہمدانی صاحب کی عاجزی اورانکساری دیکھ کر مجھے اپنے والد بزرگوارسیدفخرالدین بلےکایہ شعر یادآرہاہے۔

پیڑ نعمت بدست و سر خم ہے
ہے تفاخر بھی انکسارکےساتھ

کبھی کبھی مجھے لگتاہے بہت کچھ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا اورادب کا جہان ہوکربھی خود کوایک معمولی انسان اور طالب علم سمجھنابھی ایک ایسا وصف ہے ،جس نےمحترم صفدر ہمدانی صاحب کی عظمت کوچارچاند لگارکھے ہیں۔

محترم صفدر ہمدانی  ایک منجھے ہوئے ادیب، دلوں کے تار ہلادینے والے شاعر، مایہ ء ناز اسکالر،حُب ِ اہل ِ بیت ِ اطہار سے سرشار مرثیہ نگار ، باریک بیں محقق ، سحرطراز براڈ کاسٹر ،دیدہ ور کالم نویس ،آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ،دل کےدروازوں پر دستک دینے والے  صداکار، کئی دہائیوں سے سمندر پار مقیم رہنے کےباوجود پاکستانیت کےعلم بردار،سیرو سیاحت کے شوقین ، انجمن آرائیوں کے رسیا ،اسلامی اقدار و روایات   کےپاسدار ، نشریات اور ابلاغیات  کےماہراوربرطانیہ  میں مملکت ِ خدادادِ پاکستان کے غیرسرکاری اور غیراعلانیہ سفیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں  اتنی دنیاوں کو سمیٹے ہوئے ہیں کہ کسی ایک مختصر سے مضمون میں ان کے شخصی اوصاف ، پیشہ ورانہ مہارت  ، فنکارانہ جہتوں  اورگراں مایہ خدمات کا احاطہ آسان نہیں ہے۔

محترم صفدر ہمدانی  نےبراڈکاسٹنگ،صداکاری، ابلاغیات ،ادب ،تصنیف و تالیف ،مرثیہ نگاری، کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری کی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور  انہی کارناموں نے انہیں   عالمی سطح پر شہرت و مقبولیت کی نئی رفعتوں سے ہم کنار کیاہے ۔

محترم صفدر ہمدانی کی زندگی کی کہانی داتا کی نگری سے شروع ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کاآفتاب لاہور ہی کے ایک معروف ادبی خانوادے میں 17نومبر1950کو طلوع ہوا۔شعور نے آنکھ کھولی تو فضاوں میں درودو سلام کی گونج سنائی دی۔پنجتن پاک کی محبت و عقیدت ورثے میں ملی تھی۔گھرکے ماحول کی پاکیزگی  نےاسے مزید جلابخشی ۔یہ ایک ایسا بیج تھا جوان کی زمین ِ دل میں ان کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا اور ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی بڑھ کر ان کی طرح توانا ہوتا چلاگیا۔تعلیم و تربیت کےتمام مراحل لاہور ہی میں طے کئے۔ ان کےہاں جو والہانہ پن نظرآتاہے ،یہ لاہورکی فضاوں کی دین ہے۔ وہ کل بھی لاہوری تھے  اور برسوں لاہورسے دور رہنے کےباوجودآج بھی لاہوری ہیں ۔

صفدر مری لاہور سے نسبت ہے عجب سی
میرے لیئے یہ شہر مدینے کی طرح ہے

 ایف سی کالج، لاہور سےگریجویشن  کرنے کےبعد   انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سےابلاغیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے والد بزرگوار مصطفیٰ ہمدانی ، خالو فارغ بخاری اور ماموں رضا ھمدانی سے ادب و صحافت کاذوق ورثے میں ملاتھا ۔اسی لئےاسی سلسلے کوروزگار کاوسیلہ بنانے کی ٹھان لی ۔والد بزرگوار نے ریڈیوپاکستان لاہور سے نشریات کاآغاز کیا تھا اور محترم صفدر ہمدانی  نے بھی  اپنے رجحان اور میلان  کے باعث  ۱۹۷۴ میں ریڈیو پاکستان ، لاہور ہی سے  پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستگی اختیار کرلی اور پنڈی، تراڑکھل اسلام آباد اور ریڈیو اکیڈمی میں خدمات سر انجام دیں ۔ یہ اُس وقت کی بات ہے ،جب ریڈیو ایک  نشریاتی ادارہ ہی نہیں تربیتی ادارہ  بھی ہوا کرتاتھا۔ بڑی بڑی ادبی شخصیات کی  ادبی و علمی سرگرمیوں کامرکز یہی  ریڈیو اسٹیشن لاہور تھا۔نامور شخصیات  سے  ملاقاتوں کا ایک بہانہ بھی ان کے ہاتھ آگیا۔ رفتہ رفتہ یہ پروفیشن  ان کا بہانہ بن گیا

نشریات کی دنیامیں  محترم صفدر ہمدانی نے اپنی آواز کا خوب جادو جگایا ۔اسکرپٹ رائیٹنگ کی بنیاد پر ارباب ِ علم و ادب سے خوب داد سمیٹی ۔لاہور میں رہتے ہوئے بھی ہوا کے دوش پر ان کی آواز دیس دیس میں پہنچی اوریہ  علم و عرفان کے دیپ جلاتے  اور آگہی کی روشنی  گھر گھر پہنچاتے رہے ۔یہ وہ ہستی ہیں، جنہیں کئی ممالک  کےنشریاتی اداروں سے وابستگی  کااعزاز حاصل ہے۔ ان کے جنوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر انہیں فارغ بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔ سمندر پار بھی ابلاغیات اور نشریات کی دنیا ہی میں اپنے کمالات اور پیشہ ورانہ  جوہر دکھاتے  رہے۔ریڈیو پالینڈ سے بھی وابستہ رہے ۔قریباً چار سال ریڈیو جاپان میں خدمات انجام دے کر اپنی غیر معمولی  صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ محترم صفدر ہمدانی کے کیا کہنے۔ یہ   دودہائیوں تک بی بی سی اردو میں بھی اپنے جوہر دکھاتے رہے ہیں ۔اسی لئے  جہاں جہاں اردو بولی، پڑھی ، سنی اور سمجھی جاتی ہے،  وہاں کے رہنے والے ان کے نام، کام اور کلام  سے خوب آشنا ہیں اور آشنا ہی نہیں ،بہت سے ملکوں میں ان کے چاہنے والے ان کے گُن گاتے  نظرآتے ہیں ۔

انہیں پاکستان  سے ترک ِ سکونت کئے  ۳۰برس ہوچکے ہیں لیکن آج بھی  اپنے وطن ِ عزیز میں گزارا ہوا وقت ان کا گراں قدر اثاثہ ہے  ۔آپ پورے مان کے ساتھ  انہیں برطانیہ میں پاکستان کاخوبصورت چہرہ قراردے سکتے ہیں۔انہوں نے 1992 میں برطانیہ  کواپنا وطن ِ ثانی بنایا تھا  اور اب ۲۰۲۲میں یہ دونوں ملکوں کے شہری ہیں   لیکن وہاں رہتے ہوئے بھی ان کادل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتاہے  ۔یہ مغرب کی چکاچوند روشنیوں میں بھی پاکستان کو نہیں بھولے  اور ایسے راستے اپنا ئےکہ پاکستانیوں کی سرگرمیوں  سے خود بھی آگاہ رہیں اور دیس دیس کے لوگوں کو ان کی سرگرمیوں  کی خبربھی دیتے رہیں ۔ جی ہاں ، آپ درست سمجھے ہیں  ۔انہوں نے عالمی اخبار کااجراء  اسی لئے کیا تاکہ پاکستان اور پاکستانیوں کی خوبصورتیوں کی جھلک  دنیا کو عالمی سطح پر دکھاسکیں ۲۰۰۸سے نیٹ پریہ  عالمی اخباردستیاب ہے  اور مدیراعلیٰ کی حیثیت  سے محترم صفدر ہمدانی   مستقل مزاجی کے ساتھ  اسی ای اخبار کی بنیاد پر ضیافت ِ طبع  کااہتمام کررہے ہیں۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے ،جس کے ذریعے ہمارے ادبی ذوق کی  تسکین کاسامان بھی بہم پہنچایاجارہا ہے اور مختلف شعبوں میں  جو کارہائے نمایاں ہمارے پاکستانی انجام دے رہے ہیں ، انہیں بھی اجاگر کیا جارہا ہے ۔یایوں کہیے کہ  ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں دنیا کودکھائی جارہی ہیں ۔اسی لئے یہ عالمی اخبار مقبولیت  کے نئے ریکارڈ بنانے کاسفر جاری رکھے ہوئے ہے۔اہم بات یہ ہے کہ یہ اخبار اتنے برسوں سے کسی ایک پیسے کے اشتہار کے بغیر شائع بلاناغہ شائع ہوتا ہے

محترم  صفدر ہمدانی نے تصنیف ،تخلیق اور تالیف کی دنیامیں بھی بڑے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔انکی غزلوں کا پہلا مجوعہ’ کفن پہ تحریریں’ ۱۹۷۴ میں لاہور میں شائع ہوا تھا اور بعد ازاں مختلف تصانیف کی اشاعت کے بعد ۲۰۰۳ میں انکی کتابیں ‘فرات کے آنسو’…مرثیوں کا مجموعہ….نورِ کربلاعزائی شاعری پہ تحقیق… اور’معجزہ قلم’رباعیات ،قطعات و قصائد کا مجموعہ… فروری ۲۰۰۴ میں شائع ہوا جبکہ انکی تالیف اور تدوین”کلیات حسین” حسن عباس زیدی مرحوم کی شاعری کی کلیات ۲۰۰۵ میں طبع ہوئی۔ اگست ۲۰۰۲ میں انکا پہلا سفر نامہ” تہران اور گرعالمِ مشرق کا جنیوا” شائع ہوا. ۲۰۰۷ میں مرثیے کی دو کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے ایک”زینت ہستی” ماں کے موضوع پر لکھا ہوا مرثیہ ہے جبکہ دوسری ”عطائے رضا” کے نام سے امام رضا علیہ السلام کا مرثیہ ہے۔ ” رو رہا ہے آسماں” مرثیوں کاایک اور مجموعہ اورغزلوں کے مجموعے” بادل۔چاند اور میں ” اور” گونگی آنکھیں” زیر ترتیب ہے۔
جہان نعت کے نام سے نعتوں کا ایک انٹرنیٹ مجموعہ اردو ادب کی عالمی ویب سائٹ ریختہ پر بھی موجود ہے

صفدر ہمدانی کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات بھی لکھے گئے
2012 میں ایجوکیشنل یونیورسٹی لاہور سے ایم اے آر بی ایڈ فائنل کی ایک طالبہ مس مصباح  اعظم نے جناب ہمدانی صاحب کی معیاری اور دل سوز ’’ مرثیہ نگاری ‘‘ پر تحقیقی تھیسس لکھ کر کامیابی حاصل کی ہے یہ تھیسس ایک کتاب کی شکل میں چھَپ چکی ہے۔۔اس کے بعد سیدہ ثمر جعفری نے سیشن 2016- 2018 میں اپنا ایم فل کا مقالہ بعنوان صفدر ہمدانی کی ادبی خدمات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے مکمل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔


اب گر چہ نہیں اُس سے ملاقات مسلسل
برسوں سے تسلسل میں ہے وہ رات مسلسل

حیران ہوں کیوں اتنا مجھے چاہا ہے تم نے
دوہراتی رہی وہ یہی اک بات مسلسل

ہے آج بھی تنہائی مری ذات کا حصہ
اس لمحے تلک ہیں وہی حالات مسلسل

بچھڑے ہوئے اُس شخص کو گزرا ہے زمانہ
اب بھی ہیں مگر اُسکی عنایات مسلسل

وعدہ تھا جُدا ہوتے ہوئے رونا نہیں ہے
رہتی ہے مگر آنکھوں میں برسات مسلسل

کچھ درد ہے کچھ آہیں تو کچھ اشک سُلگتے
ملتی ہے ترے نام پہ سوغات مسلسل

جس ہات کو صفدر کبھی اُس شخص نے چوما
خوشبو سے معطر ہے وہی ہات مسلسل

مجھکو اکیلا کر کے بھی تنہا نہیں کہا
اپنا سمجھ لیا مگر اپنا نہیں کہا

بے شک بنایا اِس نے ھدف مجھکو رات دن
جیسا مجھے کہا اُسے ویسا نہیں کہا

راہ حیات میں کئی چہرے حسیں ملے
جو کوئی بھی ملا اُسے تم سا نہیں کہا

شُکر خدا کا درس دیا ماں نے اسطرح
حالات بد پہ بھی کبھی نوحہ نہیں کہا

شطرنج کی بساط پہ کھا کر شکست بھی
بس تھا قصوروار پیادہ نہیں کہا

اک پیاس تھی اُگی ہوئی ساحل کی ریت میں
تشنہ لبی کی حد ہے کہ پیاسا نہیں کہا

صفدر یہ میرا ظرف ہے اپنے غنیم کو
دشنام بھی نہ دی اگر اچھا نہیں کہا

اور آخر میں صفدر ھمدانی کا یہ ایک قطعہ بطور خاص کہ یہ دو شعر انکی قلمی،فکری،سماجی،سیاسی اور ادبی زندگی کے غماز ہیں اور ان دونوں اشعار میں انکا مزاج اور فلسفہ صاف صاف نظر آتا ہے

حیات ساری میری عشق میں ہوئی ہے بسر
کٹےگا عشق میں باقی جو رہ گیا  ہے سفر
گزر گئے ہیں جو سڑسٹھ برس مرے صفدر
کسی  یزید  کے  آگے نہیں جھکا  ہے  سر

ZMBJ
ظفر معین بلے جعفری

ظفر معین بلے جعفری کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link