چین امریکہ معاشی روابط کی عالمی اہمیت۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چینی صدر شی جن پھنگ اس وقت چین امریکہ سمٹ اور ایپک رہنماوں کے 30 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے امریکی شہر سان فرانسسکو میں موجود ہیں۔چینی صدر کا چین امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک واضح نقطہ نظر ہے کہ اسے کوئی “زیرو سم گیم” نہیں ہونا چاہئے جہاں ایک فریق دوسرے فریق کی قیمت پر مسابقت میں شریک ہوتا ہے یا پھلتا پھولتا ہے۔ شی جن پھنگ نے 2022 میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ چین اور امریکہ کی کامیابیاں ایک دوسرے کے لیے چیلنج نہیں بلکہ مواقع ہیں۔
امریکی کاروباری برادری کے ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ مسابقت کسی بھی طرح چین اور امریکہ کے مرکزی دھارے کا حصہ نہیں ہے۔ کیونکہ چینی اور امریکی عوام دونوں بہتر تعلقات اور جیت جیت پر مبنی تعاون کی خواہش رکھتے ہیں۔حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں زراعت، سیمی کنڈکٹر، طبی آلات، نئی توانائی کی گاڑیاں، کاسمیٹکس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے 200 سے زائد امریکی نمائش کنندگان نے شرکت کی، جو سالانہ ایونٹ کی تاریخ میں سب سے بڑی امریکی موجودگی ہے۔سان فرانسسکو میں شی اور بائیڈن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں اپنی توقعات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سربراہی اجلاس دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات اور عالمی معیشت کی بحالی کے لئے مزید یقین فراہم کرے گا۔ ماہرین یہ توقع کرتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے دوطرفہ تعلقات کی مستحکم ترقی کو فروغ ملے گا۔اس ضمن میں پرامن بقائے باہمی مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے کا واحد راستہ ہے اور دونوں ممالک کے عوام کی خوشی کی بنیاد رکھتا ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ دونوں اطراف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دوطرفہ تجارت مضبوط لچک کے ساتھ سن ۲۰۲۲ میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، جو اس حقیقت کو مکمل طور پر ظاہر کرتی ہے کہ چین اور امریکہ کے معاشی ڈھانچے انتہائی تکمیلی ہیں اور اقتصادی تعاون اور تجارتی تبادلے باہمی طور پر فائدہ مند ہیں.امریکی کمپنیاں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ چین ایک بہت وسیع منڈی ہے، وہ جانتی ہیں کہ تجارت کیسے کام کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ امریکی کمپنیاں اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ کاروبار کرنا پسند کرتی ہیں۔محض زرعی شعبے میں ہی تعاون کی بات کی جائے تو 2022 میں چین اور امریکہ کے درمیان زرعی مصنوعات کا تجارتی حجم 50 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا اور امریکہ سے چین کو زرعی مصنوعات کی برآمد ریکارڈ 42 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
جہاں تک دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات کی بات ہے تو ابھی حال ہی میں بیجنگ میں ایک تھنک ٹینک فورم سے خطاب کرتے ہوئے امریکی پولیٹیکل سائنسدان جوزف نائے نے کہا کہ یہ کہنا گمراہ کن ہے کہ چین اور امریکہ ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہو رہے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی، سماجی اور ماحولیاتی انحصار بہت زیادہ ہے۔اس کا اظہار صدر شی جن پھںگ نے امریکی سینیٹ کے وفد سے بات چیت کے دوران بھی کیا اور کہا کہ چین کا موقف ہے کہ دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ان کے اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں ۔ویسے بھی اس وقت عالمی معیشت کو عدم استحکام اور غیر متوقع عوامل میں اضافے کا سامنا ہے۔ ایک پیچیدہ بیرونی ماحول کا سامنا کرتے ہوئے، چینی معیشت نے دباؤ کا مقابلہ کیا ہے، جس نے عالمی ترقی کو یقینی بنایا ہے۔چین کی مارکیٹ بھی مستحکم ہے ، جو تعاون کے لئے ایک بڑی گنجائش فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں امریکی اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چینی کاروباری اداروں کے ساتھ شراکت داری ممکنہ خطرات کو کم کرتی ہے جو عالمی غیر یقینی صورتحال کے دوران درپیش آ سکتے ہیں۔اس صورتحال میں چین کے حوالے سے “ڈی کپلنگ” پر غور کرنا واقعی دانشمندانہ نہیں ہے کیونکہ تعاون سے دونوں اطراف کے لوگوں اور دنیا کو فائدہ ہوتا ہے۔حقائق کے تناظر میں موجودہ عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کو نئی تبدیلیوں اور چیلنجوں کا سامنا ہے ، اور باہمی اعتماد کو مضبوط بنانے کے لئے نئے طریقے تلاش کرنا ضروری ہے۔ایسے میں دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان بالمشافہ بات چیت باہمی اعتماد کو بڑھا سکتی ہے اورتعاون کے نئے مواقع تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔