پاک بھارت جنگ اور امن کا پیغام ۔ | تحریر: اقبال حسین اقبال

گزشتہ ادوار میں ایسی خوفناک جنگیں لڑی گئی ہیں’ جنہیں یاد کرنے سے بھی انسان دہشت زدہ ہوتا ہے۔جو صدیاں گزرنے کے باوجود لوگوں کے اذہان میں نقش ہوئے ہیں اور یہ کسی صورت محو نہیں ہونے پاتے ہیں۔ان کی ہیبت ناکی اور تباہی سے دنیا کے بہت سے ممالک آج تک نہیں نکل سکے ہیں جن میں 20ویں صدی میں لڑی جانے والی جنگیں قابل ذکر ہیں۔ان میں حکمرانوں کی ذاتی مفادات، عددی برتری، طاقت کا گھمنڈ اور سب سے بڑھ کر اپنی بڑائی کی مثال قائم کرنے کے لیے کمزور اقوام پر جنگیں مسلط کی گئیں’ نتیجے میں آباد شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو کر شمشان کا منظر پیش کرنے لگے۔قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔بے گناہ افراد مارے گئے، عورت بیوہ اور بچے یتیم ہوتے دیکھا گیا۔ عصمت و عفتوں کو تار تار کیا گیا۔انسانی لہو کو پانی کی طرح بہایا گیا۔مدتوں میں ہونے والی مادی لحاظ سے مضبوط اور ترقی کرتے سماج واپس پتھروں کے دور میں دھکیل دیے گیے۔

 آپ پہلی جنگ عظیم کو دیکھ لیجیے یہ معرکہ چار سال چلی ان چار سالوں میں ساڑھے چار کروڑ لوگ مارے گیے۔ اسی طرح مسلسل چھ برس ہونے والی دوسری جنگ عظیم میں یورپ امریکا اور جاپان کے چھ کروڑ لوگ لقمہ اجل بن گیے۔یہ جنگ ہر ماں کے گود اجاڑ گئی۔اس جنگ کی ابتدا میں جرمن نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ پولینڈ پر ہلا بولا۔انگنت لاشیں بچھا دی گئیں اور یوں پولینڈ ایک مہینے میں راکھ کا ڈھیر بن گیا باآلاخر امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم جیسا جوہری ہتھیار استعمال کر کے دنیا کو ایک نئی مصیبت میں مبتلا کر دیا جس کے اثرات آج تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔غرض جنگی محاذ پر انسان حیوانوں کو مات دیتا دکھائی دیتا ہے۔ذاتی انا کی تسکین کے لیے معصوم جانوں کو موت کی وادی میں پہنچانے والی اس عمل کو شیطان کا کھیل کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

پچھلے کئی عرصے سے پاک بھارت کے حالت بدستور تناؤ کے شکار ہیں مگر 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے حملے میں 28 سیاح ہلاک ہوئے اس جارہانہ حملے کے فوراً بعد بھارت نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فضائی حملے کیں اور مزید ایک دوسرے کے مذہبی و ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی آمیز بیانات آرہے ہیں۔ دہشت گردوں نے جنگی آگ کو بھڑکا کر پاک بھارت سمیت پوری دنیا کو ایک خطرناک جنگی دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک میں جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔آگ اور بارود کا طوفان ایک بار پھر سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے۔اگر بروقت حالات پر قابو نہیں پایا گیا تو یقیناً ایک نئی اور تیسرے عالمی جنگ کے آثار واضح نظر آرہے ہیں۔

محترم قارئین! لفظ جنگ اپنے اندر قیامت سمیٹا ہوا ہے۔ روزہ اول سے لڑی جانے والی جنگیں انسان کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ دے سکی۔ان لوگوں سے پوچھا جائے جنہوں نے جنگ کی صعوبتوں کو جھیلا ہے۔آپ پولینڈ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس، جاپان، امریکا، ایران، افغانستان، عراق، لبنان، شام، فلسطین، کشمیر اور دیگر جنگ زدہ علاقوں کے لوگوں سے پوچھے یا ان کی جنگی داستانیں پڑھیں’ یہ آپ کو بتائیں گے کہ جنگیں ہوتی کیا ہیں اور انسان کے لیے امن کتنا ضروری ہے؟جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔جنگ میں فتح جس کسی کا بھی ہو تذلیل انسانیت کی ہوتی ہے۔جنگ کوئی نہیں جیتا ہے۔لہٰذا حالات کا تقاضا یہ ہے کہ خطے کو اندوہناک تباہی سے بچانے اور جنگ کو آگے بڑھنے اور پھیلنے سے روکا جائے وگرنہ طاقت کا زور دکھایا گیا تو اس کے نتائج صدیوں تک محیط ہوں گے۔امن کے متمنی اقوام اپنے ہر مسئلے کو باہمی گفت و شنید سے حل کرتے ہیں۔ لہٰذا اقوام متحدہ، او ائی سی اور دیگر عالمی تنظیمیں اس بھڑکتی آگ کو کم کرنے جلد از جلد مثبت اقدامات کریں۔دانش مند افراد جو جنگ کی ہولناکیوں سے پوری طرح آگاہ ہیں’ کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن کے پیغام کو عام کرنے اور لوگوں کے دلوں میں امن سے محبت جنگ سے بیزاری اور نفرت پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔اپنی تحریروں میں جنگ سے پیدا ہونے والی صورت حال اور تباہ کاریوں کا ذکر کریں اور جنگوں کو روکنے کے لیے باہمی مذاکرات پر زور دیں تاکہ تیسری عالمی جنگ کے منڈلاتے خطرات ہمیشہ کے لیے ٹل سکیں۔ جنگ کی ہولناکیوں اور امن کی رواداری کو مشہور شاعر ساحر لدھیانوی نے اپنی شہرہ آفاق اشعار میں یوں بیان کیا ہے۔

ٹینک آگے بڑھے کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بھانج ہوتی ہے

 فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آؤ اس تیرہ  بخت دنیا میں

فکر کی روشنی کو عام کریں

امن کو جن سے تقویت پہنچے

 ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

اقبال حسین اقبال کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link