DRAC

گیس پیپرز اور پیئرنگ اسکیمز پر پابندی کا فیصلہ۔ | ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اور امتحانی نظام کی شفافیت اس تعلیمی عمل کا ایک اہم جزو ہے۔ حالیہ حکومتی اقدام م، جس کے تحت سوشل میڈیا پر بورڈ کے گیس پیپرز، پیئرنگ اسکیمز اور سوالیہ پرچے اپلوڈ کرنے پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ اقدام تعلیمی شعبے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

گیس پیپرز، حل شدہ پرچہ جات اور دیگر پیئرنگ اسکیمز کی روایت بہت پرانی ہے۔ پاکستان میں امتحانات کی تیاری کے لیے گیس پیپرز اور پیئرنگ اسکیمز کا رجحان کافی عرصے سے موجود ہے۔ طلبہ اور اساتذہ ان دستاویزات کو ایک رہنمائی کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں تاکہ وہ اہم سوالات اور مضامین پر زیادہ توجہ دے سکیں۔ تاہم طالب علموں اور اساتذہ کا یہ عمل تعلیم کے حصول میں کئی مسائل کو بھی جنم دیتا ہے، جن میں رٹے بازی، غیر متوازن تیاری اور تعلیمی معیار میں کمی شامل ہیں۔

اس پالیسی کے نفاذ کا بنیادی مقصد تعلیمی شفافیت کو فروغ دینا اور امتحانات کے معیار کو بلند کرنا ہے۔ اکثر گیس پیپرز اور پیئرنگ اسکیمز کی دستیابی کی وجہ سے طلبہ کا رجحان محض مخصوص سوالات کی تیاری کی طرف ہوتا ہے، جو انہیں جامع اور تحقیقی بنیادوں پر سیکھنے سے محروم کر دیتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس پر سختی کرنے کا فیصلہ دراصل ایک ایسے نظام کی تشکیل کی کوشش ہے جو طلبہ کو مکمل نصاب پڑھنے اور حقیقی تعلیمی استعداد حاصل کرنے پر مجبور کرے۔

یہ حکومتی پالیسی تعلیمی نظام پر کئی مثبت اور منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے جن میں تعلیمی معیار میں بہتری بھی شامل ہے طلبہ اب پورے نصاب کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں گے، جو ان کی علمی استعداد میں اضافہ کرے گا۔

امتحانی نظام زیادہ شفاف ہو جائے گا اور ہر طالب علم کو یکساں مواقع میسر آئیں گے۔

جب طلبہ مکمل تیاری کریں گے تو نقل اور غیر قانونی طریقوں کا سہارا لینے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

لیکن طلبہ کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں جن میں طلبہ کے لیے تیاریہ کے لیے کافی مشکلات پیش آئیں گے۔ وہ طلبہ جو مکمل نصاب کو وقت پر تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

اس پالیسی پر اساتذہ اور والدین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ والدین اور اساتذہ کے لیے بھی یہ پالیسی چیلنجنگ ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ انہیں طلبہ کی رہنمائی کے لیے نئے طریقے اپنانے ہوں گے۔

طلبہ اور اساتذہ کے لیے متبادل غیر رسمی ذرائع کی تلاش بھی مشکل ہوجائے گی۔ پابندی کے نتیجے میں کچھ افراد غیر قانونی ذرائع سے پیپرز اور اسکیمز حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس سے بلیک مارکیٹ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس پالیسی کے نفاذ میں بھی کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا پر گیس پیپرز اور پیئرنگ اسکیمز کی اپلوڈنگ پر نظر رکھنا ایک مشکل کام ہوگا۔

تین سال تک کی سزا اور 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کرنے جیسے اقدامات کو عملی طور پر نافذ کرنا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔

تعلیمی نظام میں اس بڑی تبدیلی کے لیے اساتذہ اور طلبہ کو متبادل تدریسی اور مطالعاتی طریقوں پر راغب کرنا ضروری ہوگا۔

اگرچہ یہ پالیسی مثبت مقاصد کے تحت بنائی گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور تعلیمی اداروں کو درج ذیل متبادل حل بھی پیش کرنے چاہئیں

سب سے پہلے معیاری تدریسی مواد کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ طلبہ کے لیے ایسی گائیڈز اور نصابی مواد تیار کیے جائیں جو انہیں بہتر تیاری میں مدد دیں۔

حکومت اور نجی ادارے ایسے آن لائن پلیٹ فارمز بنائیں جہاں طلبہ کو مستند تعلیمی مواد فراہم کیا جائے۔

اساتذہ کو جدید تدریسی تکنیکوں سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ طلبہ کو گیس پیپرز کے بغیر بہتر طور پر تیار کر سکیں۔

گیس پیپرز اور پیئرنگ اسکیمز پر پابندی ایک جراتمندانہ قدم ہے جو تعلیمی شفافیت اور معیار کو بہتر بنانے میں مدد دے گا۔ تاہم اس کے مؤثر نفاذ کے لیے حکومت، تعلیمی اداروں، اساتذہ، طلبہ اور والدین کے درمیان گفت و شنید ضروری ہوگا۔ اگر اس پالیسی کے ساتھ متبادل تعلیمی ذرائع بھی فراہم کیے جائیں، تو یہ پاکستان کے تعلیمی نظام کے لیے ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link