برکس سمٹ سے وابستہ امیدیں۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں بائیس سے چوبیس اگست تک 15 ویں برکس سمٹ منعقد ہو رہی ہے۔یکم جنوری 2023 کو برکس کی صدارت سنبھالتے ہوئے جنوبی افریقہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ “برکس اور افریقہ: باہمی تیز رفتار ترقی، پائیدار ترقی اور جامع کثیر الجہتی کے لئے شراکت داری” کے موضوع کے تحت رواں سال کی سمٹ کی میزبانی کرے گا۔سمٹ کے دوران برکس بزنس فورم، برکس لیڈرز ریٹریٹ اور 15 ویں برکس سمٹ پلینری جیسی تقریبات کی میزبانی کی جائے گی۔اس کے علاوہ برکس رہنماؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عالمی اقتصادی بحالی اور پائیدار ترقی اور ایک دوسرے کی باہمی مضبوطی کے لئے برکس کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے مواقع پر تبادلہ خیال کریں گے۔برکس سربراہ اجلاس میں افریقی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ اس سربراہی اجلاس کا مقصد افریقہ کے ایجنڈے کو سامنے لانا اور افریقی مسائل پر مضبوط بات چیت کرنا ہے۔
اس سمٹ کو اپنے انعقاد سے قبل ہی میڈیا کی نمایاں توجہ حاصل رہی ہے، جو گزشتہ برسوں میں برکس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی نشاندہی کرتی ہے۔تجزیہ کاروں کے خیال میں برکس میں شامل بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا کردار گہری جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے دور میں عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں تیزی سے اہم ہو چکا ہے، برکس نے پہلے ہی بین الاقوامی تعلقات کے ڈھانچے کو بہتر بنانے میں اپنی زبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔اس سمٹ سے دنیا کی بھی نمایاں توقعات وابستہ ہیں کیونکہ رکن ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقامی کرنسیوں کے تیز تر استعمال، باہمی ترقی کو تیز کرنے کے لئے مضبوط تعاون اور مشترکہ تشویش کے دیگر امور کے علاوہ جامع کثیر الجہتی کے فروغ پر تبادلہ خیال کریں گے۔
رواں سال کے اوائل میں ایک برطانوی اقتصادی تحقیقی فرم اکورن میکرو کنسلٹنگ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق برکس گروپ عالمی آبادی کا 41 فیصد بنتا ہے اور عالمی تجارت میں اس کا حصہ 16 فیصد ہے۔ پانچ برکس ممالک اب عالمی جی ڈی پی میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالتے ہیں۔عالمی سطح پر اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی موجودگی اور ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کے لئے سب سے اہم پلیٹ فارم کے طور پر ، برکس تیزی سے پرکشش ہوتا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ 22 ممالک نے باضابطہ طور پر برکس کی رکنیت کے لئے رابطہ کیا ہے۔متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان نے جون میں دبئی کے تجارتی میگزین “عرب بزنس” کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا تھا کہ برکس میں شامل ہونے والے مزید ممالک ترقی اور تعاون کے لیے ایک زبردست موقع فراہم کریں گے۔برکس میں شمولیت کے لیے درخواست دہندگان کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ ممالک متعدد چیلنجز سے نمٹنے اور مغربی اثر و رسوخ سے دور ہو کر شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے فوری طور پر تیار ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برکس میں بین الاقوامی تعلقات کے ڈھانچے کی تشکیل کے حوالے سے زبردست صلاحیت موجود ہے۔پانچوں برکس ممالک معیشت اور سماج دونوں اعتبار سے بہت سے شعبوں میں قریبی روابط قائم کرکے گروپ کو وسعت دینے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ مشترکہ عالمی چیلنجوں کا مناسب جواب دینے میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی بڑھانے کی دیرینہ خواہش کا مظہر ہے۔لہذا ، یہ امید کی جا رہی ہے کہ جوہانسبرگ سربراہ اجلاس دنیا میں برکس کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا ،یہ تقریب عالمی استحکام، مکالمے، شراکت داری اور پیش رفت میں کردار ادا کرے گی۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا غربت، کرہ ارض کے وسائل کے حد سے زیادہ استحصال، آلودگی، قحط اور بیماریوں سے دوچار ہے اور ترقی یافتہ ممالک دنیا میں مزید منصفانہ معاشی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، برکس پلس ان میں سے کچھ چیلنجوں سے نمٹنے میں یقیناً ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔