اے ربِ جہاں! پنجتن پاک کے خالق ، دعائیہ کلام : محسن نقوی۔ | تحریر: ظفر معین بلے جعفری

سیٌدی محسن نقوی ہمارے والدِ گرامی سید فخرالدین بلے کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے اور جنابِ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ع کی سیرتِ پاک کے حوالے سے سید فخرالدین بلے کی تحقیقی تصنیف کا ایک نسخہ جو ڈرائنگ روم کے شوکیس میں رکھا ہوا تھا اسے ہمیشہ آتے وقت اور بہ وقتِ رخصت لازماً چومتے اور آنکھوں سے لگاتے اور کہتے یا سیٌد فخرالدین بلؔے شاہ مولا آپ کو سلامت رکھیں. ان کے اس عمل کے جواب میں اکثر ان سے کہتا کہ والدِ گرامی ساتھ والے کمرے میں ہیں یا برٌج کھیل کر لوٹ رہے ہوں گے انہی کے سامنے ان کا قصیدہ پڑھیے گا اور سیٌدی محسن نقوی شاہ جی آپ نے تو سید فخرالدین بلے  جانی سے”ولایت پناہ“ کا ایک نسخہ لے لیا تھا تو آپ آتے ہوئے اپنے اسی نسخے کو کیوں نہیں چوم کر آتے. وہ مسکراتے ہوئے کہتے سٌیٌدی ظفر جانی قسم ہے مولا حسین کی کہ جب جب یہ نسخہ میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے میں اسے چومتا ہوں اور میں قبلہ سیٌد فخرالدین بلؔے شاہ صاحب کا اپنے باپ دادا جیسا احترام کرتا ہوں. ان کے سامنے کبھی سگریٹ پینا تو بڑی بات منہ میں پان بھی ہوتا ہے تو تھوک دیتا ہوں۔ بعض اوقات تو ان کی گفتگو کا مرکز و محور ہی بابا جانی قبلہ سیٌدفخرالدین بلؔے شاہ ہو جاتے۔ عرفان حیدر عابدی بھی محسن نقوی کے جگر جانی اور بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ جب کبھی عرفان حیدر عابدی کراچی سے لاہور تشریف لایا کرتے تو ہمیشہ ہی وہ نجف ریزہ محسن نقوی کے دولت کدہ پر قیام فرماتے۔ محسن نقوی متعدد بار اپنے مہمان عرفان حیدر عابدی کے ہمراہ بھی والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدی محسن نقوی جب پہلی مرتبہ عرفان حیدر عابدی کو اپنے ہمراہ لیے ہمارے ہاں تشریف لائے تو انھوں نے والد گرامی سے گزارش کی بلے بھائی صاحب آج ہم جناب عرفان حیدر عابدی کی خواہش پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ عرفان صاحب کی نظر ہمارے گھر میں رکھے ہوئے آپ کے عطا کردہ ولایت پناہ کے نسخے پر تھی تو ہم نے عرض کیا کہ معذرت چاہتا ہوں یہ آپ لے جا نہیں سکتے البتہ یہاں رہتے ہوئے اس کا مطالعہ فرماسکتے ہیں۔ تب عرفان عابدی صاحب نے کہا کہ ہمیں سید سرکار فخرالدین بلے شاہ صاحب کے ہاں لے چلیں. ہماری سفارش پر ولایت پناہ کا ایک نسخہ ان کو بھی عطا فرما دیں۔ قول ترانہ ، من کنت مولا ، فھذا علی مولا ۔ کی چاردھنوں والا آڈیو کیسٹ میں نے خود کاپی کروا کر جانی جگر عرفان عابدی کو دے دیا۔ محسن نقوی ادبی محفلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ سید فخرالدین بلے نے مولائے کائنات حضرت علی المرتضی علیہ السلام کی سیرت و شخصیت کے حوالے سے جو تحقیقی کتاب ”ولایت پناہ “ لکھی ہے، اس کا مسودہ دیکھنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امیرخسرو کے سات صدیوں کے بعد سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے جو قول ترانہ تخلیق کیا وہ ایک تخلیقی معجزہ ہے اور اس قول ترانے میں محترم بھائی فخرالدین بلے شاہ صاحب نے فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ اس کتاب (ولایت پناہ) کا نچوڑ پیش کردیا ہے، اسی لیے یہ قول ترانہ سننے والوں کو اپنے دلوں میں اترتا اور دعوت ِ فکر دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

سید فخرالدین بَلّے
منقبت علی المرتضیٰ

مرا سفینۂ ایماں ہے، ناخدا بھی علی
مری نماز علی ؑ ہے ، مری دعا بھی علی

وجود و واجد و موجود و ماجرا بھی علیؑ
شہود و شاہد و مشہود و اشتہا بھی علیؑ

ہے قصد و قاصد و مقصود و اقتضا بھی علی
رضا و راضی ، رضی اور مرتضیٰ بھی علیؑ

مرے لیے ہیں سبھی اجنبی علی کے سِوا
مرے لیے تو ہے تمہیدِ اقربا بھی علیؑ

ہے اُس کی ذات میں مرکوز عصمتِ تخلیق
ابو لائمہ بھی ہے ، زوجِ فاطمہؓ بھی علیؑ

اَبو ترابؑ و شرف یابِ آیۂ تطہیر
ہے راز دارِ حِرا و مباہلہ بھی علیؑ

وہی مسیحؑ کا ایلی ہے ، خضرؑ کا رہبر
وہی ہے شیرِ خدا ، موسویؑ عصا بھی علیؑ

وہی ہے نقطۂ باء اور مُعلّمِ جبریلؑ
ہے بابِ علم بھی اور حجّتِ خدا بھی علیؑ

حنین و بدر و اُحد ہوں کہ خندق و خیبر
ہے کار ساز و ید اللہ ولا فتی بھی علی

خدا کے گھر میں ولادت ہوئی شہادت بھی
خدا کے گھر میں ہے بردوشِ مصطفی بھی علی

نمازِ عصر کی خاطر پلٹ گیا سورج
ہے قیدِ عصر سے والعصر ماورا بھی علی

وہ ذوالعشیر کا داعی ، ” خلیفتی فیکم “
شریکِ عقدِ مواخاتِ مجتبیٰ بھی علی

ملیکِ اَمر ، ولایت پناہ ، ظلِ اِللہ
عطا و جود و سخا ، فقر کی رِدا بھی علی

ہے رازِ کن فیا کوں ، مظہر العجائب ہے
کہ انتہا ہے علی اور منتہیٰ بھی علی

لاہور ہی میں سید فخرالدین بلے کی زبانِ حق بیان سے یہ منقبتِ علی المرتضی علیہ السلام سن کر محسن نقوی نے منظوم داد دی اور فی البدیہہ درج ذیل چند اشعار سپردِ قرطاس و قلم کر دیے۔

ہوں لب کشا میرے بھائی بَلّے تو ان کا عرفان بولتا ہے
علی کی یہ منقبت سنو ، عشقِ کلِ ایمان بولتا ہے

علی علی کی صدائیں بھی سن رہا ہوں میں ان کی دھڑکنوں میں
فضاؤں پر ہے یوں وجد طاری کہ ان کا وجدان بولتا ہے

کلام میں فخرِ دیں کے بےشک خمار خمِ غدیر کا ہے
لنڈھائے ہیں ساغرِ ولایت نبی کا فرمان بولتا ہے

آنؔس معین کا کلام کیونکہ سیٌدی محسن نقوی نے ”نجف ریزہ“ میں رکھا تھا تو برادرِ عزیز سیٌدی عقیل محسن نقوی نے بالکل بجا یاد دلایا کہ وہ خود ان کی نظر سے بھی گزرا ہے۔ اور اگر وہ نظر سے گزرا ہے تو پھر یقیناً ”ولایت پناہ“ کا نسخہ بھی ان کی نظر سے گزرا ہو۔

کبھی موڈ ہوتا تو کہتے سیٌدی ظفر جانی آپ جون ایلیا کے پڑھنے کے انداز کی زبردست کاپی کرلیتے ہیں آج آپ جون ایلیا کا کلام سنائیں جو بھی یاد ہے، پھر میں بھی جون کا کلام سناؤں گا۔ کبھی حضرت جوش کا اور کبھی منیر نیازی کا تو کبھی مجید امجد یا بھائی جان خالد احمد صاحب کلام کا الغرض جو بھی شاعر اس دن ان کے اعصاب پر سوار ہوتا اس کا کلام سناتے بھی اور ہمیں بھی سنانے کی آزمائش میں ڈالتے۔

اگر سہہ پہر میں انہیں فراغت ہوتی تو ہم لارنس گارڈن کی سیر کو نکل جاتے اور وہاں جاکر گول گپے یا دہی بھلے اور اس کے بعد لازمی طور چائے یا کافی انجوائے کرتے۔ عموماً شام ہماری ہاٹ پاٹ پر گزرتی۔ اور رات بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے کی کٹیا میں۔ سیٌدی محسن نقوی مجھے بے شمار مرتبہ مجلس پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے ساتھ لے جاتے۔ کربلا گامے شاہ مجھے ان کے ساتھ کتنی مرتبہ جانے اور شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، مجھے خود یاد نہیں. لیکن ہاں لاہور سے باہر میں ان کے ساتھ صرف تین چار مرتبہ ہی گیا ہوں گا۔ سیدی محسن نقوی کے سید انجم معین بلے  اور سید عارف معین بلے کے ساتھ  برادرانہ ، دوستانہ اور بے تکلفانہ تعلقات اور  مراسم رہے۔

سیدی محسن نقوی کو آنس کی متعدد غزلیں اور نظمیں گویا کہ بہت سا کلام ازبر تھا ، حفظ تھا۔ آنس معین کی چونکا دینے والے لہجے کی منفرد شاعری کے حوالے سیدی محسن نقوی نے مختلف مواقع پر بہت کچھ کہا اور لکھا۔ ایسی ایک تحریر سے مختصر سا اقتباس ملاحظہ فرمائیے

میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج ، مجھے دیا لکھنا

آنس معین ایک ایسا بلند قامت شاعر ہے کہ جس کے منفرد لہجے کی شاعری سے بڑے بڑے شعراء اور نقاد دم بخود رہ گئے اور آنس معین کی شاعری کو رشک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔ آنکھوں کی بصارت ، کانوں کی سماعت اور دلوں کی دھڑکن کا وجود جب تک قائم ہے ، آنس معین کا کلام سنا اور پڑھا جاتا رہے گا اور آنس معین اہل ادب کے دلوں کی دھڑکن بنا رہے گا۔

  محسن نقوی شہید کا دعائیہ کلام کہ جو ہم ۱۹۸۸ سے سیدی جانی محسن نقوی شہید سے سنتے چلے آرہے ہیں اور جو سیدی محسن نقوی شہید کے مجموعۂ کلام فرات فکر میں ۱۹۹۳ میں شائع ہوچکا ہے۔ محسن نقوی شہید کے مجموعۂ  کلام فراتِ فکر کے چند صفحات پر مشتمل یہ دعائیہ کلام ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی بےحد اور بے حساب مقبول اور مشہور ہے۔ ہم نے سیدی محسن نقوی کو مجالس میں یہ دعائیہ کلام پڑھتے دیکھا اور سنا ہے۔ محسن نقوی شہید کہ جن کا تقریباً بارہ پندرہ برس یہ معمول رہا کہ وہ رات بارہ ایک بجے کے قریب قبلہ والد گرامی سید فخرالدین بلّے شاہ صاحب کے غریب خانے پر تشریف لاتے اور اذان فجر پر رخصت ہوجایا کرتے تھے۔ ہم پندرہ جنوری انیس سو چھیانوے کو خون میں تر بتر سیدی سرکار محسن نقوی شہید کے ساتھ لاہور کو خیرباد کہہ آئے تھے۔ فراتِ فکر کا مکمل مجموعۂ کلام محسن نقوی شہید کی زبانی متعدد بار سنا اور جب جب بھی سنا ایک ہی نشست میں سنا ہم نے اور ہمارے اہلِ خانہ نے۔ ماشا ٕ اللہ ما شا ٕ اللہ متعدد شہروں کی امام بارگاہوں میں مجالس کے اختتام پر یہ دعائیہ کلام پڑھنے کی روایت قابل صد ستائش اور باعث خیر و برکت ہے۔ اس کلام کو کراچی شہر میں منعقد ہونے والی مجالس کے اختتام پر انتہائی احترام اور عقیدت سے پڑھا جاتا ہے اور اب تو یہ دعائیہ کلام مجالس کا لازمی اور ناگزیر جزو بن چکا ہے لیکن کراچی کے ایک موصوف احمد نوید صاحب اس دعائیہ کلام کے ساتھ اپنا نام لکھنے لگے  ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے خود کو اس دعائیہ کلام کا خالق بتاتے ہیں۔ تعجب ہے کہ اگر ادب کا مجھ جیسے ادنی طالب علم کا دل اس چوری اور سینہ زوری پر کڑھتا  ہے تو صاحبان علم پر کیا گزرتی ہوگی۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اس کا باضابطہ نوٹس کیوں نہ لیا گیا۔ ایک مرتبہ جب سرکار سیدی محسن نقوی کے حلقۂ احباب میں شامل ایک انتہائی معتبر شخصیت نے موصوف سے رابطہ کیا اور ان کی اس غیر اخلاقی حرکت کی نشاندہی کی تو موصوف نے معذرت خواہانہ انداز میں مگر دیدہ دلیری سے یا یوں کہیے کہ اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دس پندرہ برس ان کی ذہنی کیفیت عجیب رہی کچھ یاد نہیں کہ کب ، کیا لکھا اور کیا نہیں ان تمام تر اعترافات کے ساتھ ساتھ موصوف نے یقین دلایا کہ میں اس کلام سے دستبردار ہوتا ہوں لیکن اس یقین دہانی کے باوجود انہوں نے عملا” ایسا نہیں کیا۔ یہ معاملہ اس لیے بھی توجہ طلب ہے کہ یہ دعائیہ کلام سیدی سرکار محسن نقوی خود مجالس میں بارہ ، چودہ برس پڑھتے رہے ہیں اور اب تو فرات فکر کی اشاعت کو تیس برس ہوچکے ہیں۔ سیدی سرکار محسن نقوی کے کلام پر ہاتھ صاف کرنے کے حوالے سے ایسی چند ایک اور مثالیں بھی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اتنی سنگین نہیں۔ ہم نے بصد احترام اور عاجزانہ انداز میں چند تلخ حقائق کا ببانگ دہل اظہار کردیا اور سیدی محسن نقوی شہید کے علمی و ادبی وارث برادرم جناب اسد محسن نقوی اور برادر محترم عقیل محسن نقوی (فرزندان محسن نقوی شہید) کو اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم نے حقائق سے ہٹ کر کوئی بات کی ہے تو وہ اس کی نشاندہی فرمادیں۔

دعائیہ کلام: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن نقوی

اے ربِ جہاں!! پنجتن پاک کے خالق
اس قوم کا دامن غمِ شبیر سے بھر دے

بچوں کو عطا کر علی اصغر کا تبسم
بوڑھوں کو حبیب ابن مظاہر کی نظر دے

کم سن کو ملے ولولۂ عون و محمد
ہر اک جواں کو علی اکبر کا جگر دے

ماؤں کو سکھا ثانی  زھرا کا سلیقہ
بہنوں کو سکینہ کی دعاؤں کا اثر دے

مولا تجھے زینب کی اسیری کی قسم ہے
بےجرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے

جو چادر زینب کی عزادار ہیں مولا
محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے

جو دین کے کام آئے وہ اولاد عطا کر
جو مجلس شبیر کی خاطر ہو وہ گھر دے

یا رب تجھے بیمارئ عابد کی قسم ہے
بیمار کی راتوں کو شفایاب سحر دے

مفلس پہ زر و لعل و جواہر کی ہو بارش
مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے

غم کوئی نہ دے ہم کو سوائے غم شبیر
شبیر کا غم بانٹ رہا ہے تو ادھر دے

ZMBJ
ظفر معین بلے جعفری

ظفر معین بلے جعفری کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link