تضمینی غزل بر مصرع اقبال عظیم۔ |علی شاہد ؔ دلکش

  کٹ گئی راہ تیری یاد میں چلتے چلتے 

” عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے “

 نام  محبوب  کا  لیتے  رہے  مرتے مرتے

“عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے”

 پیٹ کی آگ سے ہم کو نہ ڈرائے کوئی

“عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے”

 جادۂ عشق میں جلنے سے ملی ہے منزل

” عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے “

عشق میں خوب جلا، خوب بھنا فرقت میں 

 ” عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے “

 ہجر کے درد فقط ہجر  کے  عاشق  بولے !

” عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے “

 بے وطن ہونے کی بیتا ہی ہے بے وطنو! کو

” عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے “

عشق کا روگ فقط میر ؔ  میں دیکھا ہم نے

” عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے “

 صرف شاہد ؔ  ہی نہیں دل جلے بھی کہتے ہیں 

” عمر گزری ہے اسی  آگ میں جلتے جلتے “

 آنچ فرقت کی جلائے گی مجھے کیا شاہد ؔ ؟ 

 ” عمر گزری ہے اسی آگ میں  جلتے جلتے “

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link