AB

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی۔| تحریر: عارف بلتستانی

یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔کیوں کہ یہ وہی تہذیب ہے جس نے “انسانیت” کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا، اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر، اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے جس نے “جمہوریت” کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، “آزادی” کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا، اور “انسانی حقوق” کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہو چکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر ‘حقوقِ بشر’ کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں نو گیارہ خاموش نماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے جس نے ہولو کاسٹ میموریل بنایا ۔ مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا ۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں ؟

 افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔ وہ امت جو “وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم” کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا جو ہمیں رسولِ کریم ﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہو چکی ہیں۔ پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام** کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں **ایران اور یمن** کی کاروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے، اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کاروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آ گیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں—ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمد ﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہو گئی ہو گی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: “جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں؟

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link